p613 57

آبادی بم

جرمن میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ نے کہاہے کہ پاکستان کی آبادی گیارہ جولائی2020میں22کروڑ دس لاکھ ہوگئی ہے جس کے بعد پاکستان آبادی کے اعتبارسے دنیا کا پانچواں بڑا ملک بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی 1950 سے جولائی2020 تک پاکستان کی آبادی میں چھ گنا اضافہ ہوا۔ پاکستان میںموجودہ سالانہ شرح پیدائش دواعشاریہ آٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق آبادی میں اضافے سے ملکی وسائل پربوجھ میں اضافہ ہورہا ہے جو ملکی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ پاکستان میں سماجی ترقی، قومی وسائل اور اوسط فی کس آمدنی میں اضافہ اس رفتار سے نہیں ہو رہا جس رفتار سے آبادی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان میں گزشتہ برس 60لاکھ50ہزار زندہ بچے پیدا ہوئے۔ یہ تعداد تقریباً ساڑھے سولہ ہزار روزانہ یا تقریباًسات سو فی گھنٹہ بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ2019 میں پاکستان میں اوسطاً ہر ایک منٹ میں 11زندہ بچے پیدا ہوئے’ یعنی تقریباً ہر پانچ سیکنڈ بعد ملکی آبادی میں ایک شہری کا اضافہ ہوا۔ ہر پانچ سیکنڈ بعد پاکستان کی آبادی میں ایک فرد کے اضافے کی رفتار سے جاری اس اضافے اور وسائل میں کمی اور مسائل میں اضافہ رہائش،طبی،تعلیمی اور دیگر شہری سہولیات میں بہتری کی بجائے انحطاط اور ملک کا قرضوں میں مزید جکڑے جانے جیسے عوامل اب اس حد کو آگئے ہیں جن کا کوئی حل اب ممکن ہی نہیں۔ وطن عزیز کی بڑھتی آبادی، زرعی باغات اور جنگلات کے رقبوں کو بھی لپیٹ میں لے رہی ہے اور جس سے پیداوار میں کمی اور خوراک کی ضروریات میں اضافہ کی شرح کا توازن جس بری طرح سے متاثر ہورہا ہے اس کے انجام کا سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔ وطن عزیز میں آبادی کی شرح کو زیادہ تیزی سے بڑھنے سے روکنے کیلئے جو پالیسیاں متعارف کرائی گئیں وہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی کے مصداق ثابت ہورہا ہے۔ اس وقت شہروں اور تعلیم یافتہ طبقات میں شعور وآگہی کے باعث شاید ہی بچوں کی تعداد کم رکھنے کارجحان ہو، البتہ معاشی مجبوریوں کے باعث شہروں کی حد تک بچوں کی تعداد اوسطاً تین رکھنے کا رجحان نظر آتا ہے جو جاری صورتحال میں یہ بھی زیادہ ہے۔ قصبات اور دیہات میں تو بچوں کی پیدائش میں وقفہ اور کمی کا تو تصور ہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تشویشناک ہوتی صورتحال میں سوائے علمائے کرام کے کلی تعاون اور متفقہ فتویٰ ہی اب واحد ذریعہ نظر آتا ہے کہ لوگوں کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔ محکمہ بہبود آبادی پر وسائل خرچ کرنا وسائل کا ضیاع ہی ثابت ہوا جس شرح سے آبادی میں اضافہ ہورہا ہے اس کے تناظر میں بودوباش کی سہولتیں اور دیگر شہری سہولتوں میں کمی یا مشکلات یقینی امور ہیں قبرستان بھی کم پڑنے کا خدشہ ہے۔
پہلی بارش ہی سے کارکردگی کا پول کھل گیا
خیبرپختونخوا کے دارالخلافہ پشاور میں پری مون سون کی پہلی بارش نے سڑکیں تالاب بنا کر عدم تیاری اور کروڑوں روپے خرچ ہونے کے باوجود مسئلے کے حل نہ ہونے کا ایک اورثبوت مہیا کر دیا۔ حکومت کی جانب سے وسائل خرچ کرنے کے باوجود مسئلے کے جوں کے توں رہنے کے بعد اب ان انجینئروں کی ڈگریاں چیک ہونی چاہئیں جو اپنے حصے کی وصولی کے باوجود بھی ایک نالی درست انداز میں نہ بنا سکے۔ ہمارے رپورٹر کے مطابق شہر کے نشیبی علاقے زیر آب آگئے، گلبہار، نشترآباد سمیت دوسرے مقامات پر گندے پانی کے نالے بھی ٹوٹ گئے اور بارش کاپانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہوگیا۔ بارش سے شہر میں جگہ جگہ جھیلیں بن گئیں، ابھی تومون سون کی تیز بارشوں کی ابتداء نہیں ہوئی، ایسا لگتا ہے کہ نالیوں کی صفائی اور رکاوٹوں کو ہٹانے پر حسب معمول کسی جانب سے توجہ ہی نہیں دی گئی اور سڑکوں وگلیوں کی بھی صفائی نہ ہونے سے سارا ملبہ پہلے سے لبالب نالیوں اور گٹر لائن میں آگیا اور محولہ صورتحال پیدا ہوگئی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نالیوں اور سڑکوں کے کناروں میں جمع مٹی کی طویل پٹی کی فوری صفائی اور کوڑا کرکٹ وجمع شدہ مٹی مٹانے کا بندوبست کیا جائے۔ اس امر کا تدارک ضروری ہے کہ گرد کی تہہ درتہہ جمع ہو کر بھاری ملبہ میں تبدیل ہونے کا تدارک ہونا چاہئے۔ روزانہ کی بنیاد پر نالیوں اور سڑکوں کی صفائی کرتے ہی مون سون کی بارشوں کی نکاسی کا ممکنہ انتظام ہوسکتا ہے۔ عید قربان کی آمد اور اس موقع پر صفائی کے عملے پر اضافی بوجھ کے پیش نظر بھی شہر کی صفائی سوکھی گھاس ہٹانے اور نالیوں کی مکمل صفائی ہونی چاہئے تاکہ عید کے موقع پر ممکنہ بارش کی صورت میں پورا شہر ہی کہیں نہ ڈوب جائے۔
جامعات بارے اہم فیصلہ
صوبے کے سرکاری جامعات کے چانسلر گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی طالبات کو ہراسانی سے محفوظ رکھنے اور جامعات میں تعلیم کا معیار بہتر بنانے کیلئے ایک یونیورسٹی کے پرچے کسی دوسری یونیورسٹی سے چیک کرانے کا طریقہ کار اختیار کرنے کی ہدایت معقول فیصلہ ہے جسے اختیار کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے، البتہ اتنے بڑے پیمانے پر تبدیلی جامع طریقہ کار وضع کئے بغیر ممکن نظر نہیں آتا جس کیلئے جامعات میں مشاورت وتیاری شروع کی جائے۔ جامعات کے اپنے اساتذہ اور متعلقہ مضمون کا ممتحن بھی اساتذہ کے خود ہونے سے مختلف عوارض سے قطع نظر تعلیم کے معیار اور تدریس کے تقاضے بھی پورے نہیں ہورہے ہیں۔ متعلقہ اساتذہ اپنی کارکردگی کے خراب ہونے کے خوف کا شکار ہو کر ہی پرچے چیک کرتے وقت صرف نظر اور اپنے شاگردوں کو بہتر نمبر دینے کا طریقہ فطری طور پر اختیار کرتے آئے ہیں جس کا فائدہ اُٹھا کر طالب علموں میں محنت نہ کرنے کے باوجود بیٹھے بٹھائے اچھے نمبر آنے کا رجحان بڑھتا جارہا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گورنر کی ہدایت پر عملدرآمد آسان نہ ہوگا، سالانہ امتحان میں پرچوں کی چیکنگ ہی مشکل امر رہاہے کجا کہ بی ایس پروگرام کے سمسٹر کے آئے روز امتحانات کے پرچے دیگر جامعات سے چیک کرواکر بروقت نتیجہ تیار کر کے اس کا اعلان کیا جائے۔ اس ہدایت پر عملدرآمد کیلئے بین الجامعاتی امتحانی بورڈ کے قیام کی ضرورت پڑسکتی ہے بہرحال اس ہدایت کا عملی طور پر جائزہ لینے کے بعد ہی رئیس الجامعات اس حوالے سے کوئی قیمتی فیصلہ کر سکیں گے، ہدایت کی حد تک یہ ایک مناسب قدم ہے جس پر عملدرآمد کے تقاضے پورے کرنا اورانتظامات اصل امتحان ہوگا۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی