5 100

آپریشن بلو سٹار، بھارتی سکھوں کا زخمِ سینہ

بھارت کے اخبار انڈیا ٹوڈے لندن کی نامہ نگار نے اطلاع دی تھی کہ ہیلوک روڈ ساؤتھ ہال برطانیہ میں سکھوں کے سب سے بڑے گوردوارے ”گورو سری نگھ سبھا” کے باہر سکھ مذہب کے پانچویں گوروارجن دیو کیساتھ خالصتان نواز مقتول لیڈر سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قدآدم تصویر نصب کر دی ہے۔ نامہ نگار نے اس صورتحال پر ایک جملے کی صورت اپنی ناگواری کا اظہار یوں کیا تھا کہ ارجن دیو نے سکھ مذہب کیلئے جان دی جبکہ بھنڈرانوالہ پر سکھوں کے نام پر لوگوں کی جانیں دینے کا الزام ہے۔ اخبار کے مطابق اسی گوردوارے میں خالصتان کے لوگو والی جیکٹس پہنے لوگ کورونا بحران کے دوران مستحق عوام میں امدادی پیکٹ تقسیم کرتے رہے۔ برطانیہ میں ”ریفرنڈم خالصتان 2020” کی زوردار مہم بھی کورونا کی وجہ سے ملتوی ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ یہ جون کا پہلا ہفتہ ہے اور یہ مہینہ اور ہفتہ ہر سال دنیا بھر میں پھیلے سکھوں کے برسوں پرانے زخم تازہ کر جاتا ہے۔ 1984کا سال سکھوں کے قومی حافظے کیساتھ مستقل طور پر چپک کر رہ گیا ہے جب بھارتی حکومت اور ریاست نے آزاد وطن کیلئے سکھوں کی مقبول تحریک کو دربار صاحب امرتسر میں ایک فوجی آپریشن کے ذریعے کچل کر رکھ دیا تھا۔ اس تحریک میں آئیکون کی حیثیت رکھنے والے نوجوان سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی اس خونیں آپریشن میں کام آئے تھے۔ بھنڈرانوالہ کا ظہور سکھوں میں اس احساس زیاں کا نتیجہ تھا جس نے آزادی ہند کے وقت سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ کی طرف سے کانگریس کا ساتھ دینے سے جنم لیا تھا۔ ماسٹر تارا سنگھ نے قائداعظم محمد علی جناح کے باربار سمجھانے کے باجود اپنا وزن کانگریس کے پلڑے میں ڈالا اور یوں پنجاب تقسیم بھی ہوگیا اور اس تقسیم نے بدترین فسادات کی بنیاد بھی رکھی۔ آزادی کے بعد نئی دہلی کے سلوک نے سکھوں کی نئی نسل کو یہ باورکرایا کہ ان کی قیادت کا فیصلہ قطعی غلط اور مصلحت پسندی پر مبنی تھا۔ اسی احساسِ زیاں نے سکھ نوجوانوں کو انقلابی راستوں کی جانب مائل کیا۔ شعلہ بیاں بھنڈرانوالہ نے اپنی تقریروں سے پنجاب کے کھیت وکھلیان میں آگ سی لگا دی۔ پہلے پہل اندراگاندھی نے سکھ نوجوانوں کی اس تحریک کو پنجاب میں اپنی سیاسی حریف سیاسی جماعت اکالی دل کو سیاسی نقصان پہنچنے کی اُمید پر حالات سے نظریں چرائے رکھیں جب انہیں یہ اندازہ ہوا کہ سکھ نوجوان وقتی سیاسی مقاصد کی بجائے خالصتان کو ایک نظرئیے کے طور پر اپنا چکے ہیں تو بھارتی حکمرانوں کا ماتھا ٹھنکا اور انہوں نے اس تحریک کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ بھنڈرانوالہ نے سکھوں کے سب سے متبرک مقام دربار صاحب امرتسر میں مورچہ لگا لیا اور وہیں سے خالصتان تحریک کا پرچار کرنے لگے۔ اندراگاندھی نے دربار صاحب کو بھنڈرانوالہ سے چھڑانے کیلئے آپریشن بلو سٹار کے نام سے فوجی آپریشن کی منظوری دی اور جون کے پہلے ہفتے سے بھارتی فوج نے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں سے دربار صاحب کا محاصرہ کر لیا۔ یہاں تک کہ سات جون کی شب بھارتی فوج نے دربار صاحب کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس آپریشن میں بھنڈرانوالہ سمیت خالصتان تحریک کی اعلیٰ قیادت ماردی گئی جبکہ سینکڑوں عام لوگ بھی مارے گئے۔ اس آپریشن کیخلاف احتجاج کے طور پر سکھوں نے فوج اور پولیس اور بیوروکریسی سے استعفے دئیے۔ سابق سکھ فوجیوں نے اپنے تمغے اور خطاب واپس کئے اور یوں سکھوں نے ریاست کے اس اقدام کو اجتماعی طور پر مسترد کر دیا۔ چار ماہ بعد دو سکھ محافظوں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو قتل کر دیا اور یوں سکھوں پر چار ماہ بعد ایک اور قیامت برپا ہوئی۔ اس واقعے کے ردعمل میں ہندوؤں نے ہزاروں سکھوں کو بیدردی سے قتل کر دیا۔ اس کے بعد سے خالصتان تحریک پنجاب کے میدانوں سے یورپ اور امریکہ تک پھیل گئی۔ اب عالم یہ ہے کہ آپریشن بلوسٹار سکھوں کا ایسا زخم سینہ ہے جسے وہ تر وتازہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس سانحے کو نسل درنسل تازہ اور زندہ رکھنے کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ جب خالصتان تحریک پر اندراگا ندھی نے آپریشن بلوسٹار کے ذریعے فیصلہ کن وار کیا تھا تو یہ ہمارے کالج کا زمانہ تھا۔ بی بی سی اس آپریشن کی خبروں کو نمک مرچ لگا کر سنا رہا تھا۔ عین انہی دنوں جنرل ضیاء الحق نے طلبہ کی یونین سازی پر پابندی عائد کی تھی جس کے ردعمل میں ملک بھر میں ایک زوردار تحریک چل رہی تھی۔ حکومت اس تحریک کو پکڑ دھکڑ کے ذریعے دبا رہی تھی اور بی بی سی اس طلبہ تحریک کی بھرپور کوریج کر رہا تھا اسلئے طلبہ تحریک کی خبروں کی وجہ سے خالصتان تحریک کی خبریں بھی سننا پڑتی تھیں۔ عمومی تاثر یہی تھا کہ آپریشن کے نتیجے میں سکھ تحریک کو جڑ سے اُکھاڑ دیا گیا۔ امسال چھ جون کو عین آپریشن کی رات گولڈن ٹیمپل میں کال تخت کے نیچے خالصتان کے حق میں نعرے لگائے گئے، جس پر گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے ارکان نے ان نعروں کا دفاع کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ ان نعروں میں کیا برا ہے اگر بھارتی حکومت ہمیں خالصتان کی پیشکش کرتی ہے تو ہم قبول کریں گے۔ بھارتی حکومت نے ہمیشہ یہ کوشش کی تھی کہ کال تخت پر کٹھ پتلی مسلط رہیں جو دہلی کے گیت گاتے اور خالصتانیوں کو غدار کہتے رہیں۔ یہ نام کے سکھ ہوں اور کام دلی سرکار کا کرتے رہیں۔ وقت نے اس پالیسی کو ناکام کردیا، وقت بتا رہا ہے کہ آپریشن بلوسٹار کے ذریعے جلاوطن کی جانے والی خالصتان تحریک عالم جلاوطنی میں ہی اپنے نظریات کو واپس مشرقی پنجاب منتقل کر چکی ہے اور یہی بھارت کا نیا دردسر ہے۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل