p613 95

احترام محرم کے تقاضے اور ذمہ داریاں

خیبرپختونخوا میں محرم الحرام کی آمد سے کافی قبل سے پولیس، انتظامیہ، مختلف مکاتب فکر کے علماء اور تنظیموں کی جانب سے شہر میں ہم آہنگی کیلئے جو کوشش ہر سال ہوتی ہیں اس کے باعث محرم الحرام پر امن طور پر گزرجاتا ہے۔ادارہ تبلیغ الاسلام پشاور اس ضمن میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو سالوں سے شہر کے امن کیلئے کوشاں رکھنے کی شاندار تاریخ رکھتی ہے۔ایک وقت ایسا بھی تھا جب ملک بھر کی طرح پشاور اور خیبرپختونخوا میں محرم الحرام کی آمد کشیدگی سے جڑی تھی اور شہریوں کو محرم کی آمد پر تشویش ہوتی تھی مگر اب یہ صورتحال نہیں۔صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبہ بھر میں محرم الحرام میں مثالی امن ویکجہتی رواداری اور اخوت کا ماحول حددرجہ اطمینان کا باعث امر ہے۔ چند سال قبل محرم الحرام کے دوران جو صورتحال اور خطرات کا احساس ہوتا تھا اب وہ صورتحال نہیں جس کاسہرا جہاں قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کے سر جاتا ہے وہاں معاشرے میںہم آہنگی کے فروغ میں علماء اور ذاکرین کا کردار بھی قابل ذکر ہے۔ محرم الحرام میں عقیدت کے طور طریقے مختلف ہونا کوئی قابل ذکر امر نہیں، محرم الحرام کا احترام اور محرم الحرام میں پیش آنے والے واقعات اور عبادات ہر مسلک کے عقیدے وعقیدتوں کا حصہ ہے ۔جہاں تک شہادت حضرت امام حسین اور واقعہ کربلا کا تعلق ہے نواسہ رسولۖ کا احترام اور ان سے عقیدت ہر مسلمان اور ہر کلمہ گو کا فرض ہے، یہ واقعہ سارے مسلمانوں کیلئے یکساں اہمیت کاحامل ہے، ان سے عقیدت کا اظہار اور کربلا کے واقعے کی یاد ہر ایک کو اپنے انداز سے منانے کا حق حاصل ہے سوائے اس کے کہ کوئی ایسی صورت پیدا نہ ہو جس سے شہر کا امن متاثر ہو اور معاشرے میں تضاد پھیلے۔ہمارے تئیں اہل بیعت سے عقیدت ومحبت کسی ایک مکتبہ فکر کا عقیدہ نہیں بلکہ سارے مکاتب فکر کا یہ مشترکہ ورثہ ہے۔اہل بیعت سے محبت جس طرح ایک فقہ کے ماننے والوں کے عقیدے کا حصہ ہے اسی طرح دوسرے فقے کیلئے بھی یہ خانوادہ یکساں محبت واحترام کاباعث ہے۔ ان ایام کے احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے اپنے طریقے سے عقیدت کے اظہار کے وقت دوسروں کے حوالے سے ایسا رویہ اختیار نہ کیا جائے جو دل آزاری کا باعث ہو اس سے اجتناب کرنے کیساتھ ساتھ معاشرتی رواداری اور باہمی احترام کا رویہ بر قرار رکھا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ شہر کا امن متاثر ہو۔
ایک اصول پسند دبنگ سیاستدان کی رحلت
نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹر میرحاصل بزنجو کی وفات سے ملک ایک توانا جمہوری آواز بلند کرنے والے سیاسی رہنما سے محروم ہوگیا، ان کی وفات ملک اور خاص طور پر بلوچستان کے عوام کیلئے بڑا نقصان ہے۔ میر حاصل بزنجو کی وفات سے بلوچستان ایک ایسے قد آور اور جری سیاستدان سے محروم ہوگیا جس نے ہر فورم پر بلوچستان کے عوام کی نمائندگی اور ان کی محرومیوں کو دور کرنے کی زندگی بھر سعی کی۔حاصل بزنجو کا شمار ان گنے چنے سیاستدانوں میں ہوتا تھا جنہوں نے مفادات کیلئے سیاسی وفاداریوں کا سودا کبھی نہیں کیا۔وہ ایک دبنگ قسم کے ایسے صاف گو سیاستدان تھے جو لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے ضمیر کی آواز بلا خوف کہہ ڈالنے کی جرأت رکھتے تھے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں ہار جانے کے بعد انہوں نے اکثریت کے باوجود ہار کی جو وجہ بیان کی اور ایوان سے خطاب میں جو کچھ کہا اس طرح کا خطاب شاید ہی کبھی کوئی اور کر سکے گا۔ حاصل بزنجو سیاسی مسائل کا حل سیاسی انداز سے نکالنے کے اصول پرتاحیات قائم رہے اور کبھی بھی سطحی جذبات کو سیاست پر غالب آنے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ دلیل کا سہارا لیا اور حقیقت پسندانہ موقف پر زندگی بھر ڈٹا رہا۔حاصل بزنجو کی وفات سے پاکستان کی سیاست میں غیر متشدد آئینی سیاست اور جمہوری واصولی بنیادوں پر حقوق کی بات کرنے والی ایک مئوثر آواز خاموش ہوگئی۔حاصل بزنجو جیسے سیاستدان کم ہی پیدا ہوتے ہیں ان کی وفات خاص طور پر بلوچستان کے عوام کیلئے ایک بڑا نقصان ہے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کی کمی مدتوں محسوس ہوگی۔ مالک کائنات ان کی بشری غلطیوں سے درگزر کرے اور ان کو اپنے رحمت کے سایہ میں جگہ عطا فرمائے۔آمین۔
پشاور کے طلبہ کو داخلوں میں مشکلات
صوبائی دارالحکومت پشاورمیں انٹر امتحان میں پاس ہونے والے طلبہ کی تعداد دولاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے، اتنے بڑے پیمانے پر طلبہ کو سرکاری کالجوں میں داخلہ ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سرکاری کالجوں نے میرٹ بھی بہت زیادہ مقرر کر رکھا ہے، حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض بورڈز میں نمایاں نمبر لینے والے طالب علم بھی معروف کالجوں میں داخلے سے محروم رہ گئے، صوبائی دارالحکومت پشاور کے کالجوں میں دیگر اضلاع کے آنے والے طالب علموں کو داخلے سے مقامی طلبہ کے داخلوں سے محروم رہ جانے کا مسئلہ تو پرانا ہے لیکن امسال صورتحال زیادہ سنگین نظر آتی ہے۔ بی ایس میں پہلی بار داخلوں میں نشستوں کی تعداد محدود ہونے سے ہزاروں طلبہ کا کسی بھی سرکاری کالج اور تعلیمی ادارے میں داخلہ ملنا مشکل امر ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے جہاں کالجوں کی تعداد میں اضافہ اور کالجوں میں دوسری شفٹ شروع کرنے کی ضرورت ہے وہاں طالب علموں کو مختلف شعبوں کی طرف راغب کرنے کیلئے بھی آگاہی دینے اور راہنمائی کی ضرورت ہے تاکہ کم سے کم طلبہ متاثر ہوں۔
بی آر ٹی فیڈر روٹ کا جلد اجراء کیا جائے
بی آر ٹی کے مین کاریڈور پر کامیاب اجراء کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم کو دی گئی بریفنگ کی روشنی میں فیڈ روٹ کے اجراء کے بھی جلد سے جلد انتظامات کئے جائیں اور اس اہم منصوبے کا دوسرا مرحلہ شروع ہو،تاکہ عوام کو بہتر سفری سہولتوں کی فراہمی کے وعدے کی تکمیل ہو۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم