اضافہ در اضافہ

نگران وفاقی کابینہ نے گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی منظوری دے دی، جس کے تحت پروٹیکٹڈ صارفین کے لیے گیس کے ماہانہ فکسڈ چارجز3900فیصد تک جبکہ گھریلو صارفین کے لیے گیس کے نرخ 194فیصد تک بڑھا دئیے گئے ہیں۔اس فیصلے کے تحت ماہانہ0.25سے 0.9مکعب میٹر تک گیس کے پروٹیکٹڈ صارفین کے لئے گیس کی اوسط قیمت300فیصد تک بڑھ جائے گی، جبکہ ان کے سالانہ بل میں150فیصد تک اضافے کا تخمینہ ہے۔اب تو حکومت کا ہر فیصلہ عوام پر بم گرانے کے مترادف ثابت ہوتا ہے لیکن کسی کو اس کا احساس نہیں مہنگائی آٹا بحران تو اب معمول اور گیس و بجلی کی قیمتوں میںاضافہ اب عوام کاگویا مقدر بن گیا ہے عوام کو ریلیف دینے کی کوئی سعی نظر نہیں آتی اورایسا لگتا ہے کہ حکومت خواہ وہ سابقین کی ہو یا موجودہ کسی کو بھی عوام کی حالت زار سے کوئی سروکار نہیں گیس کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اور صنعتی و تجارتی ہر قسم کے صارفین پر یکساں منفی اثر پڑتا ہے بالخصوص کپڑے اور کھاد کی صنعت کا قدرتی گیس ایک لازمی جزو ہے حکومت گیس کی قلت کے مسئلے کو بھی قیمتوں میں اضافہ کرکے حل کرنے کی سعی میں ہے حالانکہ حکومت کو اس مسئلے کا حل گیس کے سستے ذخائر کی تلاش اور حصول کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت تھی عوامی سطح پر اس مسئلے کا حل اور حکومت کی مدد گیس کے استعمال میں کفایت شعاری اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوگا حکومت کے اس اقدام کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک جانب ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر ختم ہوئے جارہے ہیں مگر حکومت سیاسی بنیادوں پر مزید گیس پائپ لائنیں بچھانے میں مصروف نظر آتی ہے ہمارے منصوبہ سازوں کو اس پالیسی پر نظر ثانی کرکے خواہ مخواہ کے وسائل کے ضیاع سے ہاتھ کھینچ لینا چاہئے ساتھ ملک میں قدرتی گیس کی چوری اور لائن لاسز کی روک تھام کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔لیکن مشکل امر یہ ہے کہ حکومت اس طرح کے ٹھوس اور تعمیری منصوبوں پر توجہ نہیں دیتی بلکہ گرمیوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور سردیاں آتے ہی گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حساب برابر کرتی ہے چونکہ حکومت کو فوری رقم چاہئے ہوتی ہے اس لئے اس کا فوری اور آسان حل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور اسی ماہ سے وصولی ہوتی ہے ساتھ ہی گزشتہ مہینوں کے بقایا جات کی بھی ایک فہرست تیار ہوتی ہے جوگرمیوں میں گیس کے بلوںاور سردیوں میں بجلی کے بلوں کوکم نہیں ہونے دیتی اور یہ ایک چکر کی صورت میں سال بھر جاری رہتا ہے ۔گیس او ربجلی بلوں میں اضافہ اگر صرف انہی کی مہنگائی کی صورت میں عوام کو بھگتنا پڑے تو بھی کوئی بات تھی یہاں ہر دو کا صنعتوں اور ٹرانسپورٹ میں استعمال اور اس کے نرخوں کے دیگر تمام مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں سامنے آتا ہے اب جبکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی اور روپے کے قدر میں کچھ وقتی استحکام سے مہنگائی میں کمی کی جو توقعات وابستہ کی جارہی تھیں حکومت کے اس نئے فیصلے کے بعد اب اس کی توقع عبث ہی ہوگا۔ مشکل امر یہ ہے کہ سارا بوجھ عوام پرلادا جاتا ہے اشرافیہ اور حکمران طبقہ کسی قسم کی قربانی دینے پر تیار نہیں کم ازکم اب تو اس حقیقت کا ادراک حکومت اور بیوروکریسی کو عملی طور پر ہونا چاہئے اور ایک مقروض ملک کو قرضے کس طرح سینت سینت کر خرچ کرنے اور قرض کی واپسی کا انتظام کر لینا چاہئے کاش اس طرف بھی کبھی توجہ دی جائے۔ عوام قرضوں کابوجھ بھی اٹھاتے ہیں اور مہنگائی کا بھی سب سے زیادہ سامنا عوام ہی کو ہے ۔چارہ گر آمادہ ہی نہیں کہ وہ کچھ خود میں تبدیلی لائیں ایسے میں عوام کامہنگائی سے قریب المرگ ہوجانا ہی بنتا ہے اور حالات مزید ابتر ہو رہے ہیں ۔توانائی کے نرخوں میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی مہنگائی کے اپنے اثرات ہوتے ہیں جو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر مہنگائی میں اضافے کا باعث ہیں انفرادی گھر اور خاندان کی سطح پراپنے اخراجات میں کمی اور حکومتی و ملکی سطح پر کفایت شعاری عملی طور پر اپنائے بغیر ان مشکل حالات کا مقابلہ ممکن نہیں یہ صورتحال ہر سطح پر ذمہ دارانہ کردار کا متقاضی ہے جس کا ادراک کرکے عملی طور پر سخت اورمشکل حالات سے نمٹنے کی عملی تیاری کی جائے۔عوام پر اتنا بوجھ نہ ڈالا جائے کہ وہ اس کے متحمل نہ ہو سکیں سردیوں میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہی نہیںکیا جاتا بلکہ گیس ناپید ہونے کے باعث عوام کو ایندھن پر اضافی اخراجات بھی اٹھانے پڑتے ہیںجوان پر مزید بوجھ کا باعث بنتا ہے ایک جانب اضافی بلوں کی وصولی اور دوسری جانب حکام کی جانب سے گیس کی فراہمی میں بری طرح ناکامی ہر دو ایسے مسائل ہیں جس کا ہر سردیوں میں عوام کو سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس مسئلے کاوعدوں اوردعوئوں کے باوجود حکام کے پاس کوئی حل اور متبادل بھی نہیں ہوتا کیا اس سال بھی اس قدر ہوشرباء اضافے کے باوجود بھی عوام کو دوہری مشکلات کا سامنا ہو گا یا پھرعوام کو گیس کی فراہمی میں تعطل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گااور اضافی اخراجات بھی نہیں کرنے پڑیں گے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں