2 451

اللہ آلیو گھبرا تو نہیں گئے

دو عدد صدارتی آرڈیننس تیار ہیں، اولاً 140 ارب روپے کے ٹیکسوں کی چھوٹ ختم کرنے کیلئے اور ثانیاً بجلی پر 150ارب روپے کے سرچارج کیلئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے کا اگلا قدم بجلی 5روپے 65پیسے مزید مہنگی ہوگی۔ نصف درجن اقساط میں سابقہ 3روپے 90پیسے کو جمع کیجئے، کل اضافہ فی یونٹ بنیادی قیمت 9روپے 55پیسے بنے گا۔ حکومت کو اکتوبر تک بجلی کے صارفین سے 884روپے اضافی ریونیو وصول کرنا ہے، آپ گھبرائیں یا خوشی سے قبول کریں یہ آپ پر منحصر ہے۔ ایک اور بات ذہن میں رکھیں حکومت نے آئی ایم ایف کو بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 3روپے60پیسے سالانہ اضافہ کی یقین دہانی کروا رکھی ہے۔ ویسے قبلہ گاہی ڈاکٹر عشرت حسین والی اصلاحاتی کمیٹی بھی آئی ایم ایف کے ایجنڈے پر ہی کام کر رہی ہے۔ نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی احسن اقبال بھی ایک کہانی سنارہے ہیں ان کا دعوی ہے کہ اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جارہا ہے۔ حکومت ایک قانونی مسودے پر غور کر رہی ہے جو اگر منظور ونافذ ہوگیا تو اسٹیٹ بینک آئی ایم ایف کے ذیلی ادارے کے طور پر فرائض بجا لائے گا۔ دونوں آرڈیننسوں کے اجرا کیلئے وفاقی کابینہ نے سرکولیشن منظوری دیدی ہے۔ آرڈیننس آئے بس آئے، اب جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ کیا جو نصف سے زائد آبادی خطِ غربت سے نیچے آباد ہے اس کا کیا کرنا ہے کیونکہ خود اسٹیٹ بینک یہ تسلیم کررہا ہے کہ مہنگائی مزید بڑھے گی۔ ارے ٹھہریں آپ کو ایک اور دلچسپ بات بتادوں حکومت نیپرا ایکٹ میں ترمیم کرنے جارہی ہے جس کے بعد نیپرا ازخود سرچارج کے نفاذ کا فیصلہ کیا کرے گا۔ بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ وزیراعظم اور ان کے رفقا اڑھائی برسوں سے حکومت میں ہونے کے باوجود ابھی تک ڈی چوک والی تقریریں کرتے اور زمانہ اپوزیشن والے بیان دیکر جی بہلا رہے ہیں۔ سرتسلیم خم ملک کو سابق ادوار کے حکمرانوں نے لوٹا، سوال یہ ہے کہ آپ اڑھائی برسوں سے اقتدار میں ہیں آپ نے کیا کیا اور یہ کہ آپ کے اردگرد موجود اور چند دیگر افراد کے معاملات بھی تو سابق حکمرانوں جیسے ہیں، ہم سبھی دوسروں کی آنکھ کا تنکا تلاش کرنے میں ماہر ہیں بلکہ یہ سجھ لیجئے کہ ہمیں ایک یہی کام ہی تمام تر حسن کیساتھ آتا ہے۔ خیر چھوڑیں، ہم کن چکروں میں پڑگئے فی الوقت تو یہ ہے کہ پچھلے دو اڑھائی برسوں میں جتنی مہنگائی ہوئی ہے اس کی ماضی قریب میں خصوصا چوروں کے دور میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہمارے وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ مئی2018 میں نون لیگ کی جانب سے دو ہزار ارب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستان پر کل قرضے 28ہزار ارب تھے۔ ہماری حکومت نے اس میں سے 35ہزار ارب روپے ادا کر دئیے اب صرف 43ہزار ارب کے قرضہ جات باقی ہیں یہ روشن حساب اگر آپ کو سمجھ آجائے تو مجھ طالب علم کو ضرور بتائیے گا کیونکہ میں ریاضی میں ہمیشہ سے کمزور رہا ہوں۔ چلیں آگے بڑھتے ہیں، اسٹیٹ بینک کے مطابق رواں سال کے پہلے دو مہینوں جنوری اور فروری میں مہنگائی کی شرح گزشتہ دو برسوں میں سب سے زیادہ رہی لیکن پنجاب میں اطلاعات کی خصوصی معاون فردوس عاشق اعوان کا دعوی ہے کہ ملک میں پہلی بار عام آدمی نے خوشحالی دیکھی ہے، اب بتائیں اس ارشاد مبارک پر کیا عرض کرنا ہے۔ فقیر راحموں کا خیال ہے کہ درحقیقت فردوس عاشق اعوان عام آدمی خود کو سمجھتی ہیں اور وہ ہر دور میں خوشحال ہی رہیں۔ اب چلتے چلتے یہ بھی سن لیجئے کہ بدترین مہنگائی کی نئی لہر نے کورونا کی تیسری لہر کی کوکھ سے جنم لیا ہے، شعبان ختم ہونے پر رمضان المبارک کی آمد ہوگی، قیمتیں ایک بار پھر بڑھیں گی اور عیدالفطر پر دوبارہ۔ اس ملک میں دو کام بہت اہم ہیں اور یہ لوگ خوشی سے سرانجام دیتے ہیں اولاً غیبت اور ثانیاً منافع خوری۔ دونوں کاموں میں مصروف لوگوں کے معمولات کو دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ فقیر راحموں نے ان معمولات کا ذکر کرنے سے منع کیا ہے کہتے ہیں توہین مقدسات ہوجائے گی۔ چھوڑیں میں آپ کو حاجی حلیم مرحوم کی بات سناتا ہوں حاجی صاحب نے اپنی زندگی میں بارہ حج وعمرے کئے تھے، کپڑے کا کاروبار تھا، چرب زبان بھی بلا کے تھے۔ ہر سال زیارات مقدسہ سے واپس آتے تو دو کام کرتے، تین مکانوں اور سات دکانوں کا کرایہ بڑھا دیتے، ساتھ ہی چار آنے فی گز کپڑے کی قیمت بھی۔ خریدار کہتے حاجی صاحب! آپ کا بھائی ملک کریم تو سوا دو روپے گز فروخت کر رہا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتے اس نے حج بھی تو نہیں کیا۔ ہمارے یہاں عمومی صورتحال یہی ہے۔ سٹیٹ بینک اور ادارہ شماریات دونوں مان رہے ہیں کہ فروری میں مہنگائی بڑھی ہی نہیں بلکہ بے قابو ہوئی لیکن گزشتہ شام وزیرریلوے کہہ رہے تھے اتنی مہنگائی نہیں جتنا شور ہے۔ وزیر ریلوے سے یاد آیا سنا ہے وہ تین بڑے ریلوے سٹیشن این ایل سی کو ٹھیکے پر دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کیلئے مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ ریلوے کو ہی ٹھیکے پر دیدیں عین ممکن ہے کہ کچھ بہتری آجائے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''