امید اور ناامیدی کے درمیان

پشاور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات اور انتخابی نشان کیس پر حکم امتناعی واپس لے کر پارٹی کے لئے ایک بار پھر گومگو کی کیفیت پیدا کردی ہے ‘ پشاور ہائی کورٹ کے سنگل بنچ نے چند روز پہلے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف حکم امتناعی جاری کیاتھا جس پر ملک بھر میں سیاسی اور قانونی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی تھی،ماہرین اس بات پرحیرت کا اظہارکر رہے تھے کہ پشاور ہائی کورٹ کے ایک رکنی فاضل بنچ نے حقائق سے روگردانی کرتے ہوئے دوران سماعت الیکشن کمیشن کے مؤقف کوسننے کی زحمت نہ کرتے ہوئے مبینہ طور پر یکطرفہ فیصلہ صادرکیا’ جوقانون کے تقاضوں کے منافی تھا ‘دوسرا اہم نکتہ یہ تھا کہ پشاور ہائی کورٹ کے محولہ فیصلے کا اطلاق پورے پاکستان پر کیسے لاگو کیاجا سکے گا، کیونکہ کسی بھی صوبے کے ہائی کورٹ کے فیصلے متعلقہ صوبوں کی حد تک توقابل قبول ہوسکتے ہیں مگرجب تک حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے نہ آئے ،فیصلے کا اطلاق پورے ملک پرلاگونہیں کیا جا سکتا ‘اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کاا طلاق صرف خیبرپختونخوا کی حد تک جائز قراردیا جا سکتا ہے مگر باقی کے تین صوبے اس پر عمل درآمد کے پابند ن نہیں ہو سکتے ‘یوںبھی انتخابات پورے ملک میں ہو رہے ہیں اس لئے کسی ایک صوبے کے ہائی کورٹ کے فیصلے پر کیونکر پورے ملک میں عمل کیا جاسکتا ہے ،جبکہ فیصلے میں سب سے بڑا سقم الیکشن کمیشن کے مؤقف کونہ سننا بھی قرار دیاگیا ہے ،حالانکہ الیکشن کمیشن خود اختیارات کے حوالے سے نہ صرف خود مختار ہے بلکہ اس کی حیثیت ہائی کورٹ کے برابر ہے’ اور ا یک ہائی کورٹ کے دوسرے ہائی کورٹ کے کسی فیصلے پر حکم امتناعی جاری کرنے کے حوالے سے ماہرین آئین و قانون جوسوال اٹھا رہے تھے ان کا تقاضا بھی یہی تھا کہ اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جایا جاتا ‘ لیکن متاثرہ پارٹی کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے مبینہ طور پر سہولت کاری پر جو تبصرے کئے جا رہے ہیں ‘ پارٹی رہنمائوں نے شاید اسی حوالے سے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہو’ اور پارٹی کو ریلیف مل بھی گیاتھا لیکن الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ ہی میں نظرثانی درخواست دائر کرکے اپنے فیصلے کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں کامیابی حاصل کرلی ہے’اور فاضل عدالت نے اپنے ہی حکم امتناعی سے رجوع کرکے ایک بار پھر الیکشن کمیشن کے مؤقف کودرست قرار دے دیا ہے ‘ یہ ساری صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب محولہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کے مطالبے پر انٹر ا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں مبینہ طور پر بنیادی اصولوں کونظرانداز کرتے ہوئے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ‘ جس پر پارٹی کے بانی رکن اور پارٹی پر مختلف اعتراضات اٹھانے والے اکبر ایس بابر نے بھی ان کونظر انداز کرنے پر احتجاج کیا جبکہ ملک بھر میں باخبراور سیاست سے جڑے ہوئے تجزیہ کاروں ‘ میڈیا ارکان اور وی لاگرز نے پارٹی کے انتخابات پرسوال اٹھائے ‘ اور تو اورملک میں ایسی ہی سرگرمیوں پرکڑی نگاہ رکھنے اور اس حوالے سے بے لاگ رپورٹس پیش کرنے والے ادارے پلڈاٹ کی جانب سے بھی ان انٹر ا پارٹی انتخابات پراپنی رپورٹ میںاعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن جلدی میں کرائے ‘ پلڈاٹ نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پارٹی کے امیدوار کسی ایک انتخابی نشان پرالیکشن نہیں لڑ سکیں گے ‘ اس صورتحال کے پیش نظر اگرچہ پارٹی کے رہنماء بیرسٹر گوہر خان( جواب تازہ فیصلے کے بعد پارٹی کے چیئرمین نہیں رہے) نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی سے بیٹ کا نشان واپس لینے کے معاملے کو سپریم کورٹ لے جانے کاعندیہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریگی اورکسی بھی دوسرے انتخابی نشان کے ساتھ الیکشن میں شامل ہوگی جو اصولی طور پرایک مثبت انداز فکر ہے اور ان کے تازہ اعلان سے ان افواہوں کی تردید ہو رہی ہے جن کا لب لباب یہ تھا کہ بیٹ کا نشان نہ ملنے کی صورت میں پارٹی الیکشن کا بائیکاٹ کرسکتی ہے ‘ بہرحال ابھی حتمی طور پرپارٹی کواس کے انتخابی نشان سے محرومی کافیصلہ پارٹی رہنماء کے بقول سپریم کورٹ میں ہی ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ پارٹی اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا اعلان کر چکی ہے ‘ بہرحال امید پر دنیا قائم ہے اس لئے آخری فیصلہ آنے تک پارٹی قیادت کوصبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اورجیسا کہ بیرسٹر گوہر نے امید ظاہر کی ہے کہ سپریم کورٹ ان کے حق میں فیصلہ دے گی ‘ تواصولی طور پر بہتریہی ہے کہ پارٹی اپنا کیس سپریم کورٹ میں لے جانے کے بعد آخری فیصلے کا انتخاب کرے اوراپنی انتخابی سرگرمیاں جاری رکھے ‘ اور ان افواہوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرے کہ پارٹی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے بارے میں سوچ رکھتی ہے ‘ ماضی میں بھی بعض مواقع پرکچھ سیاسی جماعتوں نے الیکشن سے باہر ہونے کی غلطی کی تھی جس کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑا تھا ۔ اس لئے انتخابات سے باہر ہونے کی سوچ مثبت انداز فکر نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں:  پیغام ِ فرید…اپنی نگری آپ وسا توں''