انتخاب سے پہلے معاشی استحکام ضروری ہے

یہ حقیقت ہے کہ پوری پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے بدترین معاشی ا ور سیاسی بحران میں جکڑی ہوئی ہے۔پہلے بھی ناقابلِ تلافی نقصان اُٹھا چکے ہیں اور اب تو اس بحران میں اس قدر شدت آچکی ہے کہ آئین شکنی اور غیر جمہوری و فسطائی رویے رہنماؤں اور عوام میں روز کا معمول بن چکے ہیں۔ایک سیاسی جماعت نے اقتدار جانے کے بعد مسلسل جارحانہ انداز اختیار کر لیا ہے جبکہ مخلوط حکومت کو شدید معاشی مشکلات کا سامنا ہے، ایسے میں مُلک گیر اشتعال انگیزی کا خطرہ بڑھتا چلا جارہاہے۔ سب کو تشویش لاحق ہے کہ یہ صورتحال انفرادی جان ومال کے خسارے اور مُلکی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ حصولِ اقتدارکے لیے سیاسی رہنما ہر اصول، ضابطے، قاعدے اور قانون کی پرواہ کیے بغیر محض سیاسی انتقام میں اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ عوامی سطح پہ سوائے نفرت، انتشاراور فساد کے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ مسجدنبوی میں جو کچھ ہوا ،چاہے کسی نے بھی کیا ،وہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ میرے ایک عزیز عمرہ ادا کرنے کے بعد لوٹے تو بتایا کہ غارِحرا کی دیواروں پہ بھی سیاسی نعرے لکھ کر ہم نے اپنی فکری ناپختگی کا مکمل ثبوت پیش کیا ہے۔اس وقت موجودہ حکومت کے ترجمان قومی معیشت کے حوالے سے جو صورتحال بیان کر رہے ہیں ، اگر بروقت مگر مشکل فیصلے نہ کیے گئے تو دیوالیہ قرار پانے کا خدشہ بھی صحیح ثابت ہو سکتا ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت خرید اور مُلک میں اس کی قیمت فروخت کے فرق سے حکومت کو اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ عوام کے غیظ و غضب سے وقتی طور پر بچنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر جو سبسڈی دی تھی ، اب وہ مخلوظ حکومت کے لیے بلکہ عوام کی معاشی مشکل میں اضافہ کر رہی ہے۔ پٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں کو حقیقی صورت حال کے
مطابق متعین کرنا ان میں سب سے اہم ہے کیونکہ اس کے بغیر آئی ایم ایف سے معاہدہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ گزشتہ برسوں میں معاشی بد انتظامیوں ،حکومتوں کی طرزِحکمرانی اور مختلف حکمت عملیوںکی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچا بلکہ اس سے اسٹیٹ بینک ، وزارت معیشت، پلاننگ کمیشن اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسے اہم ادارے بھی کمزور ہوئے۔ اسی دوران معاشی پیداوار میں کمی رہی جس کی وجہ سے خاطر خواہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے میں ناکامی ہوئی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔
مختصر یہ کہ پاکستان کو اس وقت معاشی پیداوار میں کمی، بھاری بجٹ خسارے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سرکاری قرضوں میں غیر معمولی اضافے کا سامنا ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے ہمیشہ ان مشکلات میں اور معیشت کی بہتری کے لیے آئی ایم ایف سے مدد مانگی ہے۔ آئی ایم ایف نے معیشت کی روایتی پالیسیوں کے مطابق معاشی استحکام اور بجٹ خسارے میں کمی پر زور دیا ہے تاکہ قرضوں کو کم اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔ اقتصادی ماہرین نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ معیشت کی پالیسوں کو صرف بجٹ خسارے میں کمی تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ معاشی ترقی اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ قرضوں میں استحکام اور مہنگائی پر قابو بھی اس کی ترجیحات میں ہونا چاہئے۔آئی ایم ایف کے نقطہ نظر سے پاکستان کو چاہئے کہ وہ معاشی استحکام پر زور دے تاکہ معاشی پیداوار اور روزگار میں اضافہ کیا جاسکے۔
اس طرح ایک طرف تو مقامی وسائل کو بروئے کار لانے اور دوسری طرف اخراجات کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ معاشی ترقی اور تعمیری مقاصد کے لیے جاننا ضروری ہے کہ مالی خسارہ کہاں اور کیسے صرف کیا جارہا ہے۔ کیا یہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہورہا ہے تاکہ انسانی سرمائے میں اضافہ ہوسکے ؟یا اسے ملکی فزیکل انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے اور مضبوط کرنے پر خرچ کیا جارہا ہے جو کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے اور معیشت بہتر کرنے میں کردار ادا کرے گا؟ اگر اس کا جواب مثبت ہے تو سرکاری خسارہ اگرچہ وہ مختصر مدت میں بڑھے گا تاہم قابل قبول ہوگا۔ وہ ترقی پذیر ممالک جو جی ڈی پی میں ٹیکس کی شرح بڑھانے میں ناکام رہے اس کی وجہ سے قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا جس سے ادائیگی میں مشکل پیدا ہوئی۔اسی طرح ٹیکس کی بنیادوں کو مزید وسعت دے کرٹیکس کی ساخت،ٹیکس انتظامیہ کی استعداد کو بہتر بناکر اور ٹیکس کے قواعد وضوابط کو مزید سخت کر کے مالیاتی پالیسی کے تعمیری کرداروں کیلئے درکار فنڈ حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ کیا پاکستان اس مالیاتی پالیسی پر عملدرآمد کے لیے رضامند ہے؟اس معاشی بحران سے نکلنے کے لیے حکومت کو جلد ازجلد کئی مشکل مگر ناگزیر فیصلے کرنا ہوں گے۔اربابِ اقتدار صرف اور صرف معیشت پر توجہ دیںاور اپنے آپ کو سیاسی مخالفین کے معاملات میں نہ اُلجھائیں۔ہاں ہر سیاسی جماعت کا یہ مطالبہ ضرور ہے کہ الیکشن ہوں اور یہ سب مسلسل جلسے بھی کیے جارہے ہیں۔مگر اہل فکر کی یہ رائے ہے کہ موجودہ مُلکی حالات کے تناظر میں فوری انتخاب کا انعقاد مُلک کے مفاد میں ہر گز نہیں۔ عوام مزید انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے اور اُنہیں محض نعروں اور سازشوںمیں کوئی دلچسپی نہیں ۔الیکشن میں عوام ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کومعاشی استحکام کے حوالے سے ہی پرکھیں گے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات