انجام گلستان کا سوال

برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اس امر کی تردید کی ہے کہ انہوں کبھی آرمی چیف کو بات کرنے کی دعوت دی نہ ہی وزیر اعظم شہباز شریف سے بات چیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ بیان چل رہا ہے کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں۔ جس جماعت کے ساتھ ملک کے عوام ہوں اسے بیساکھیوں کی ضرورت نہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں ہمارے لیے کوئی فرق نہیں پڑا۔ سوچا تھا نیا چیف آئے گا تو تبدیلی آئے گی لیکن سختیاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں۔سابق وزیر اعظم عمران خان کا ایک سیاسی جماعت کے قائد کی حیثیت سے آرمی چیف سے غیر رسمی ملاقات ہو تو مضائقہ نہیں لیکن کسی سیاسی معاملے میں یا پھر اپنی جماعت کے لئے کسی رعایت کے حصول کے لئے آرمی چیف سے کسی رابطے کی ویسے بھی کوئی گنجائش نہیں نہ آئین و قانون میں اس کی گنجائش ہے اور نہ ہی آرمی چیف کے منصب کے تحت اس کی ذمہ داری میں آتا ہے بلکہ یہ خلاف قانون و دستور عمل قرارپائے گا۔ اس کے باوجود جہاں ایک طرف وہ کسی ملاقات کی خواہش اور مذاکرات کی دعوت کی تردید کرتے ہیں وہاں دوسری جانب نئے آرمی چیف کے آنے کے باوجود سیاسی حالات میں تبدیلی نہ ہونے پر وہ شکوہ کناں بھی ہیں حالانکہ اصولی طور پراس میں کسی آرمی چیف کی رخصتی اور آنے سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے ماضی میں جو ہو سو ہوا کے برعکس کم از کم موجودہ آرمی چیف کی آمد کے بعد سیاسی طور پر کسی مداخلت یا اس کی بالواسطہ کوشش تو درکنار بطور سپہ سالار وہ اور حساس ادارے کے سربراہ دونوں ہی میڈیا سے اجتناب کی جوپالیسی اختیار کر رکھی ہے عسکری قیادت کے اس فیصلے سے فوج کا پیشہ ورانہ وقار بڑھا ہے اور تنقید تقریباً ختم ہوگئی ہے جہاں تک وزیر اعظم سے ملاقات و مذاکرات کی خواہش کے اظہار کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ہے یہ ایک غیرسیاسی عمل پر یقین کے مترادف ہے کہ جہاں ایک جانب اختلافات اور مشکلات کی دہائی دی جاتی ہے وہاں ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان سے رابطے تک کے لئے آمادہ نہیں یہی وہ انداز اور رویہ ہے جس کا الزام حکومتی جماعتوں پر بھی لگتا ہے اور تحریک انصاف کے قائد تو ببانگ دہل اس عمل کو خلاف شان سمجھتے ہیں ملک میں سیاسی عمائدین اس طرح کے رویے اور انداز فکر اختیار کریں توپھر ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہوگا ہی صورتحال کی حقیقی تشریح ہوگی۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!