بحالی معیشت کا تقاضا مفاہمانہ فضا

وزیر اعظم نے درآمدی بل میں ماہانہ ایک ارب ڈالر کمی کے لئے وفاقی ریونیو بورڈ(ایف بی آر)کی تجاویز منظور کرتے ہوئے 80سے زائد مصنوعات کی درآمدات پر پابندی لگانے کا فیصلہ ایک اچھی کوشش ضرور ہے لیکن یہ بھی کافی نہیں بلکہ مزید اقدامات کی ضرورت ہو گی بہرحال جن 80 سے زائد اشیا پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے اور سپر سٹورز پر فروخت کے لئے درآمد کی جاتی ہیں جبکہ ان اشیا میں کتے اور بلیوں کی خوراک، چیز، مکھن اور دیگر اشیا شامل ہیں۔1800سی سی اور اس سے زائد کی گاڑیوں کی درآمد پر 100 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور35فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔اسی طرح موبائل فونز اور سیرامک ٹائلز کی درآمد پر 40 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔امر وقع یہ ہے کہ 10ماہ کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکانٹ خسارہ 13 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے اور صرف اپریل میں ملکی درآمدات 6 ارب60کروڑ ڈالر رہی تھیں۔پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر جون 2020 کے بعد سے اب تک کی سب سے نچلی سطح 10.3ارب ڈالر تک آ چکے ہیں۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدرمیں ریکارڈ گرائوٹ اور نتیجتاً افراط زر کی مسلسل بڑھتی ہوئی شرح نے عوام کو مہنگائی سے بدحال کر رکھا ہے۔مبصرین کے مطابق ایک ہفتے تک دوحہ میں جاری رہنے والے مذاکرات مسلم لیگ(ن)کی اتحادی حکومت کے لئے ایک مشکل مرحلہ ہے، جہاں اسے ایک جانب آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا ہو گا اور دوسری جانب آئندہ انتخابات سے قبل عوام کو تیل و بجلی پر دی جانے والی رعایتیں ختم نہ کرنے کے چیلنج کا سامنا بھی ہو گا۔یہ کسی سے پوشیدہ امر نہیں کہ ماضی وحال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی، سرکاری اداروں میں اصلاحات، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بتدریج کمی لانے میں ناکام رہی ہیں۔سیاسی اور معاشی بحرانوں کے شکار ملک پاکستان کی نئی حکومت آخری سانسیں لیتی معیشت بچانے کے لئے اپنی پیشروحکومتوں کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک جانب آئی ایم ایف سے مذاکرات ہو رہے ہیں دوسری جانب وزیر خارجہ امریکہ جا کر کچھ رعایتوں کے حصول کی سعی میں ہے لیکن اس صورتحال کا کیا کیا جائے کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام میں جس طرح آئے روز کمی آنے کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے بعض فیصلوں کے باعث جمہوری پارلیمانی نظام ہی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں ایک دوسرے کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا کردارسیاسی مخاصمت کا نہیں بلکہ ذاتی دشمنی تک بات پہنچ جاتی ہے سیاسی میدان میں ایسے دائو پیچ آزمائے جارہے ہیں اور ایسا منظر نامہ بنا دیا گیا ہے جس میں ملک میں نہ صرف جاری حکومت کے حوالے سے غیر یقینی اور عدم استحکام کی صورتحال بن گئی ہے بلکہ
انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کیسی ہو گی اس بارے میں بھی غیر یقینی کی کیفیت نظر آتی ہے ایسی صورتحال میں معاشی مسائل کے حوالے سے قرضوں کے حصول سے لے کر دیگر ضروری اقدامات تک کوئی بھی چیز اعتماد اور یقینی طور پر ممکن نظر نہیں آتا جس کا بالاخربوجھ ملک و قوم اور عوام پر پڑتا ہے جاری صورتحال میں عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت ملک اور عوام کے لئے مشوش نہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پڑی ہے ملک معاشی بوجھ تلے دبا جارہا ہے اور سیاسی غیر یقینی کی صورتحال میں کوئی ٹھوس فیصلہ سامنے نہیں آتا معاشی مسائل کے حل پر جب سیاسی مفادات کو فوقیت دی جائے گی تو معاشی مسائل کا حل تو درکنار خدانخواستہ صورتحال سری لنکا جیسی ہو نے کا خدشہ ہے ۔المیہ یہ ہے کہ ماضی و حال کی حکومتیں مالی خسارے میں کمی نہیں لا سکیں اور نہ ہی قومی معیشت پر بوجھ بنے سرکاری اداروں میں اصلاحات لائی گئی ہیں، بجلی و تیل کی قیمتوں پر سرکاری رعایتوں میں بھی بتدریج کمی نہیں لائی گئی، گندم تک بیرون ملک سے خریدی جا رہی ہے۔کئی ممالک نے آئی ایم ایف سے ہنگامی فنڈز لئے لیکن پھر خود کو اپنے پائوں پر کھڑا کر کے اسے خدا حافظ کہہ دیا۔ہمارے ملک میںآئی ایم ایف سے جان چھڑانے اور کشکول توڑ دینے کے دعوے تو بہت کئے گئے ایک موقع پر نظر آرہا تھا کہ کشکول سے قوم کی جان چھوٹ گئی ہے لیکن یہ خواب خیال ہی ثابت ہوا اور ایک مرتبہ پھرجذباتی حکمرانوں سے لے کر ملکی معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کی دعویدار حکمرانوں تک سبھی کشکول بدست آئی ایم ایف کے در پہ کھڑے ہیںسخت شرائط کے ساتھ آئی ایم ایف قرضہ دے گی تو اس کی واپسی اور عوام پر مزید بوجھ پڑے گا اور اگر قرض نہ لی جائے تو پھر خدانخواستہ سری لنکا کی صورتحال کا سامنا کرنے کا خدشہ ہے ۔حکومت کے تازہ فیصلے کے نتیجے میں 10بلین ڈالر کی بچت تو ہو گی لیکن یہ فیصلہ احسن ہونے کے باوجود مسئلے کا حل نہیں بلکہ مسئلے کا حل غیر یقینی کی صورتحال کے خاتمے اور سیاسی استحکام ہی سے ممکن ہو سکتا ہے جس کا فی الوقت دور دور تک امکان نظر نہیں آتا حکومت ان حالات میں معاشی مسائل سے نمٹنے میں کامیاب نظر نہیں آتی بلکہ حکومت کا خود کی مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب ہونا بھی ممکن نظر نہیں آتا جتنی غیر یقینی کی صورتحال بڑھتی جائے گی اس میں یہ حکومت کی خام خیالی ہی ہو گی کہ وہ معاشی بحران کے بے لگام گھوڑے کو قابو کر سکے گی حکومت کو اب اس امر کا ادراک ہونا شروع ہونا چاہئے کہ خزاں تو چلی گئی ہے مگر بہار اب بھی نہیں آئی ایک تماشا جاری ہے خدا جانے یہ کب تک جاری رہے اور کتنی طویل سیریز ہے جاری صورتحال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈالر کی قیمت کو روکنے کے لئے غیر ضروری اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کے استعمال کو بھی محدود کیا جائے اور بڑی بسوں میں ڈیزل کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے، تاکہ ہماری تیل کی کھپت جس میں 30 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا ہے اس میں مزید اضافے کو روکا جاسکے۔ساتھ ہی ساتھ حکومتی اخراجات پر بھی ممکنہ حد تک کمی لانے کے لئے قدغن لگانے کی ضرورت ہے نیز بیورو کریسی اور اعلیٰ سرکاری اداروں کے افسران کے دوران سروس اور تاحیات شاہانہ مراعات میں کمی لائی جائے تمام اداروں کے بجٹ کا بلا امتیاز خصوصی آڈٹ ہونا چاہئے اور جتنے سخت معاشی فیصلوں کی ضرورت ہوہر قسم کے دبائو اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر وہ فیصلے کئے جائیں جس کے حوالے سے حکومت کو مشورے اور تجاویزدے کر مخالف سیاسی جماعتیں بھی ملکی معیشت کو سہارا دینے میں اپنا کردار ادا کریں ملک معاشی بحران سے نکل آئے تو سیاست بھی ہو گی اور حکومت بھی آئے گی۔خدانخواستہ ملک سری لنکا جیسی صورتحال سے دو چار ہو جائے تو سیاست اور سیاستدانوں سبھی کے لئے گنجائش کم رہ جائے گی۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ