2 500

بنگلہ دیش اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟

اسرائیل نے ای پاسپورٹ میں اسرائیل کیلئے کارآمد نہ ہونے کا جملہ حذف کر دیا اور یوں اب بنگلہ دیشی پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر بھی ممکن ہو سکے گا۔ بنگلہ دیش کی حکومت نے اس فیصلے کی کئی توجیہات پیش کی ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ پاسپورٹ کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کیلئے یہ جملہ حذف کرنا ضروری تھا۔ بنگلہ دیش کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اس کی پالیسی تبدیل ہورہی ہے۔ بنگلہ دیش اپنے مؤقف پر قائم رہے گا اور پاسپورٹ کو اسرائیل کیلئے کارآمد بنانے کے باوجود پالیسی میں تبدیلی نہیں لائے گا۔ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، کچھ عرصے میں جب خلیج کے مالدار ملک متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو اس کے بعد دو اور ملک اس راہ پر چل دئیے۔ اسرائیلی حکام نے بہت یقین سے کہنا شروع کیا کہ کئی عرب ممالک اور ایک غیر عرب مسلمان ملک بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔ اس وقت کی صورتحال کے مطابق غیرعرب ملک کا اشارہ پاکستان کی جانب سمجھا گیا۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان پر دباؤ کی خبریں بھی آرہی تھیں اور اس عمل میں سعودی عرب کی خاموش تائید کا تذکرہ بھی ہو رہا تھا۔ پاکستان کے میڈیا میں بھی اچانک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مضمرات اور اثرات پر بحث چھڑ گئی تھی اور کئی میڈیا پرسن کھلے بندوں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوانے لگ گئے تھے۔ حکومت کیخلاف پہلے سے بھرے بیٹھے ایک مذہبی سیاسی راہنما تلوار سونت کر میدان میں نکل آئے تھے اور ”میں نہ کہتا تھا” کے انداز میں حکومت کو یہودی لابی کے ایجنٹ ہونے کا طعنہ دینے لگے تھے۔ حد تو یہ خود کئی وزراء بھی روشن خیالی کی لہر میں بہہ کر یا حالات کا غلط اندازہ لگا کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حمایت میں نظر آنے لگے تھے۔ کچھ دن کی معنی خیز خاموشی کے بعد وزیراعظم عمران خان اچانک میڈیا میں نمودار ہوئے اور انہوں نے دبے لفظوں میں تسلیم کیا کہ ان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ ہے مگر ان کا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ فلسطینیوں کو مطمئن اور دوریاستی حل پر عمل کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت کا ایک سلسلہ چل پڑا اور دوٹوک مؤقف کے بعد غیرعرب ملک کے حوالے سے پاکستان کے گرد منڈلانے والے شکوک وشبہات کے سائے دور ہوتے چلے گئے۔ اب غزہ میں اسرائیل کی برپا کردہ قیامت کے اثرات پوری طرح موجود ہیں کہ اچانک بنگلہ دیش نے پاسپورٹ سے اسرائیل کیلئے کارآمد نہ ہونے کا جملہ ہٹا کر اس راہ پر پہلا قدم رکھ دیا جس پر متحدہ عرب اور کئی دوسرے عرب ملک چل پڑے تھے۔ یوں جس غیرعرب ملک کی طرف اشارہ کیا جا رہا تھا عین ممکن ہے وہ بنگلہ دیش ہی ہو۔ پاسپورٹ کو عالمی معیار کے مطابق بنانے کی دلیل اور تاویل کتنی جاندار اور حقیقی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر فی الحال اسرائیل اور بنگلہ دیش میں سفارتی تعلقات کی برف پگھلنا شروع ہوگئی گوکہ بنگلہ دیش کے شہریوں پر اسرائیل کے سفر کی پابندی برقرار رہے گی مگر اگلے مراحل میں اس صورتحال میں بھی تبدیلی آسکتی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کیلئے اس مرحلے پر کوئی بڑا قدم اُٹھانا اس لئے بھی مشکل ہے کہ بنگلہ دیشی رائے عامہ غزہ کے حالات کے باعث غصے سے بھری بیٹھی ہے۔ اسرائیلی مظالم کیخلاف بنگلہ دیش میں دریائی جلوس نکل چکے ہیں اور رائے عامہ کے جذبات کا طوفان ابھی تک موجزن ہے۔ اول تو ایسے ماحول میں اسرائیلی حکومت کا یہ فیصلہ ہی قطعی بے موقع اور عجیب ہے مگر یہ فیصلہ حکومت کے گلے بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کی رائے عامہ کا ایک بڑا حصہ مسلمانوں کے اجتماعی مسائل کے بارے میں ہمیشہ سے حساس اور جذباتی رہا ہے۔ حسینہ واجد پوری کوشش کے باوجود ان اثرات کو کم یا محدود نہیں کرسکیں۔ پاسپورٹ عالمی معیار کے مطابق بنانے کا جواز اگر حقیقی ہے اور اس کیلئے کوئی دباؤ موجود ہے تو لامحالہ یہ دباؤ پاکستان پر بھی آنا ہے۔ ایف اے ٹی ایف جیسے دوسرے ادارے اور اتھارٹیز تو موجود ہیں جو اس جملے کو حذف کرانے کیلئے پاکستان کی کلائی مروڑ سکتے ہیں۔ اسرائیل کی راہ کے کانٹوں کو پلک سے چننے والے ایسے تمام عالمی اداروں اور تنظیموں میں غلبہ رکھتے ہیں۔ ابھی تو سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ پر امریکہ کی غلامی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ اگر دنیا کے سب سے بڑے فورم کا یہ حال ہے تو ایف اے ٹی ایف سمیت باقی اداروں کا کیا حال ہوگا۔ اس لئے پاکستانیوں کو ذہنی طور پر اس دباؤ کیلئے نہ صرف تیار رہنا ہوگا بلکہ اس کے مقابلے کی تدبیر بھی کرنا ہوگی۔ عین ممکن ہے اس مقصد کیلئے بین الاقوامی فورمز کا سہارا لیا جائے، ایسے میں پاکستان کیلئے مشکل صورتحال ہوگی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ایک جملے کا اخراج نہیں بلکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی جانب پہلا قدم ہے۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں