3 277

بک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے

”باپ” نے بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں، یہ وہ باپ نہیں جس کے بارے میں ایک بہت پرانا انڈین فلمی گیت کچھ یوں ہے کہ ”باپ کرے نہ بھیا، سب سے بڑا روپیہ” بلکہ یہ تو بلوچستان کی اس جماعت کا مخفف ہے جس کا پورا نام ہے، بلوچستان عوامی پارٹی، اور جہاں تک اس ”باپ” کی آنکھیں دکھانے کی بات ہے تو اپوزیشن جماعتوں کے اکٹھ پی ڈی ایم کی جانب سے جس طرح ان دنوں حکومت پر مبینہ طور پر کڑا وقت پڑا ہے، اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے باپ نے بھی اصلی باپ بن کر مطالبات شروع کر دیئے ہیں اور وفاق میں ایک اور وزارت مانگ لی ہے، کچھ لوگ نہ صرف باپ بلکہ ایم کیو ایم کے مطالبات کو بھی اہم گردانتے ہوئے کراچی بیسڈ جماعت کے اس پرانے وتیرے سے باندھ رہے ہیں جو ایم کیو ایم کا اس کے سابق سربراہ الطاب بھائی ہی کے دور سے ”طریقۂ واردات” رہا ہے اور مختلف ادوار میں مختلف حکومتوں سے اپنے مطالبات منوانے کے حوالے سے اختیار کیا جاتا تھا، حالانکہ متحدہ قومی موومنٹ کے کنوینیر خالد مقبول صدیقی نے اپنے تازہ بیان میں کہا تو ہے کہ پتا ہے ہماری 7 نشستیں اہم ہیں، بلیک میل نہیں کریں گے، سیاست کو تجارت نہیں سمجھا، متحدہ والوں نے مردم شماری کے حوالے سے سوال اُٹھا رکھے ہیں، مگر حکومت نے اب تک اس پر کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی بلکہ سابقہ حکومتوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہوئے ٹال مٹول کی پالیسی سے کام لیتی آئی ہے اب جبکہ ملکی سیاست ایک بار پھر بھنور میں پھنس چکی ہے تو اس مشہور مصرعے کی کیفیت اُبھرتی دکھائی دے رہی ہے یعنی ”جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اُتارا کرتے ہیں” اور جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے تو اس کی ”کشتی” میں سوار ہونے سے لیکر کشتی سے چھلانگ لگانے تک کا سفر ہمیشہ اشاروں کا مرہون منت رہنے کی باتیں عام ہیں۔ اب بھی یہ جو اپنے سات ارکان کو اہم قرار دینے کی بات کی جارہی ہے تو اس پیغام کے اندر ”عقل والوں” کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں، جنہیں متحدہ کے ماضی میں آسانی سے ڈھونڈا جاسکتا ہے اور اب تو ”باپ” نے بھی باپ بننے کی ٹھان لی ہے، سو دیکھئے کہ آنے والے چند ہفتوں کے دوران کھیل کیا رخ اختیار کرتا ہے، کیونکہ ایسے نازک موقعوں پر اس قسم کی ”تڑیاں” لگانے والوں کو ”آنے والی تھان” پر آنے کا جواب آں غزل والا بیانیہ بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، کہ بقول شاعر
دیدہ وروں کے شہر میں ہر ایک پستہ قد
پنجوں کے بل کھڑا ہے کہ اونچا دکھائی دے
ادھر دوسری جانب جمعیت علمائے اسلام (ف) کے اندر پیچ پڑا ہوا ہے، مولانا فضل الرحمن نے اپنے چار دیرینہ ساتھیوں کو ان کے مخالفانہ روےّے پر پارٹی سے کیا خارج کر دیا ہے کہ بعض ”تماشائی” خوشی سے جھوم رہے ہیں اور ان کے ٹرولز نے مولانا موصوف پر تابڑ توڑ حملے شروع کر کے دل کے پھپھولے پھوڑنا شروع کر دئیے ہیں۔ خود نکالے گئے چاروں اہم رہنماؤں نے جمعیت کو ”خالص” بنانے یعنی اس سے ”ف” کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مولانا شیرانی نے فرمایا ہے جمعیت علمائے اسلام پاکستان کو جمعیت علمائے اسلام (ف) سے الگ کیا جارہا ہے، اسی طرح حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ جے یو آئی کے دستور میں ”ف” کہیں نہیں، اسے کیوں مانیں۔ انہوں نے مولانا شیرانی کی مکمل حمایت کا بھی اعلان کیا ہے، بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی کہ اگر ہمارے جید علمائے کرام کو بھی جو انتہائی پڑھے لکھے ہوؤں کی صف اول میں ہوتے ہیں، معاملات کو سمجھنے اور حقیقت تک رسائی میں اتنے برس لگ جائیں یعنی جے یو آئی کے دستور میں ”ف” کی عدم موجودی کا احساس ہونے تک ایک طویل سیاسی اور پارلیمانی سفر طے کرنا پڑے، جس کے دوران جب تک وہ پارلیمان کے اندر موجود ہر قسم کی سہولیات سے بھرپور استفاادہ کر رہے ہوتے ہیں تو ان کی عمیق نظریں جے یو آئی کے دستور میں حرف ”ف” تک نہ پہنچ سکیں، مگر جیسے ہی انہیں یہ احساس ہو کہ اب سینیٹ کی نشست ملنے کا امکان ہے، نہ کسی اور اہم عہدے کا ہاتھ آنے کی توقع تو پھر ان کی ژرف بینی اتنی تیز ہوجاتی ہے کہ جے یو آئی کا دستور انہیں ستانے لگتا ہے۔ پھر اس صورتحال پر کوئی کیا تبصرہ کرسکتا ہے، بقول ڈاکٹر وزیر آغا
دئیے بجھے تو ہوا کو کیا گیا بدنام
قصور ہم نے کیا، احتساب اس کا تھا
اب تو محمد علی درانی نے بھی بالآخر ہاتھ کھڑے کر لئے اور کہا ہے کہ سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش آگے نہیں بڑھ سکی، یاد رہے موصوف نے گزشتہ ہفتے کوٹ لکھپت جیل میں لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف سے ملاقات کر کے موجودہ سیاسی بحران کو حل کرنے کیلئے کچھ تجاویز پیش کی تھیں جن کے بارے میں مختلف قسم کے تبصرے سامنے آئے۔ تاہم شاید میاں شہباز شریف کی جانب سے حوصلہ افزاء جواب نہ ملنے پر درانی صاحب نے مایوس ہو کر اپنی کوششیں ترک کر دی ہیں، اس ملاقات کے اصل غرض وغائد کے بارے میں کبھی نہ کبھی تو حقائق سامنے آہی جائیں گے مگر انہوں نے شاید دیر کر دی تھی یعنی بقول مرحوم سجاد بابر
میں درد کے قصبے میں بہت دیر سے پہنچا
بِک جاتے ہیں سب تازہ ثمر شام سے پہلے

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب