تبدیلی آنہیں رہی ۔۔۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر ہر سو یہ پرچیاں چسپاں ہو رہی ہیں کہ تبدیلی آرہی ہے ، حوالہ ان پرچیوں میں مسلم لیگ (ن) کی جا نب سے مستقبل کے وزیر اعظم کانام بھی آشکا ر کردیا ہے ، پہلے غالباًنومبر میں خبر آئی تھی کہ وزیر اعظم نے مشیر و ں ‘ معاونین اور وزراء کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک بیر ون ملک نہ جائیں ، تاہم اس پر کتنا عمل ہوا ا س بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی ہے بیر ونی دور وں کی خبریں آتی رہی ہیں ، اس کے ساتھ ہی یہ اطلاعات بھی تھیں کہ لندن حکومت اتارؤ چڑھاؤ کا مر کز بن چکا ہے ، نو از شریف سے حکومتی حلقوں کے نمائندے دھڑا دھڑ ملا قاتیں کر رہے ہیں ، اس گہما گہمی میں نو از شریف کے سمدھی اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی پھو ل جھڑی چھوڑ دی کہ حکومتی ارکا ن بڑے جو ش وجذبے سے درون خانہ تبدیلی کے خواہا ں ہیں اور مسلسل رابطہ بھی رکھے ہوئے ہیں لیکن ان روابط کی کوئی شناخت نہیں بتائی گئی ، البتہ عمران خان کے پائے تخت حکومت کو مضبوط بنانے والے ان کے دیر ینہ ساتھی شوکت ترین کی لندن میں سرگرمیا ں زبان یا ر من ترکی بنی ہوئی تھیں ، اب بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ مسلم لیگ( ن) کے لیڈروں سے زیادہ متحرک ہیں بڑکیں ما رنے یا نقارہ پیٹنے کی بجائے عملاًسرگرم ہیں ۔سیاست کے رنگ عمو ما ًبکھرے بکھر ے سے ہوتے ہیں ، اور ان میں رنگ بدلا ؤ بھی پختگی کی حد تک گہر ا ہو تا ہے ، نواز شریف جو اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ایک نکا تی ایجنڈا لے نکلے تھے کہ ووٹ کو عزت دو اس بارے میں ناقدین نے کئی مرتبہ پیچ لڑا یا کہ عزت دو کی ڈور ی خود نو از شر یف نے کا ٹ دی ہے لیکن جس استحکا م سے نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے حق میں سیا ست کو بڑھا وا دیا اس سے مسلم لیگ( ن) کو سیا سی استحکا م ہی نہیں بلکہ سیا سی مقبولیت ملی ، اس میں اب کوئی مبالغہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس وقت پاکستان کی سب سے زیادہ مقبول جما عت مسلم لیگ( ن) کو بتا یا جا رہا ہے ۔گو کہ مسلم لیگ کی سیا ست کا محور صرف پنجا ب ہی رہا ہے ، جس کو قومی سوچ کے حامل درست نہیں قرار دیتے کیو ں کہ پاکستان کی قومی یکجہتی کو صوبائیت کے جغرافیہ کے ترازوپر نہیں پرکھنا چاہیے ۔لیکن سیاسی کھیل ایسا کھیل ہے جس میں عقل ودانش کی کسوٹی پر فیصلہ نہیں کیا جا تا بلکہ ووٹوں کی گنتی پر پر کھا جا تا ہے ، چنا نچہ ہر پارٹی یہ سمجھے ہوئے ہے کہ اقتدار کا مقدر اس کا ہے جس کی زنبیل میں پنجاب کی پر چیاں ہیں چنا نچہ حکومتی کار کر دگی اور ضمنی انتخابات کی عکا سی نے سمجھا دیا ہے کہ جس کی پرچیا ں پنجا ب میں ذخیر ہ ہیں وہی آئندہ کا حکمران ہے چنا نچہ مسلم لیگ( ن) کوپنجاب سے ہا رنا ممکن نہیں نظر آرہا ہے ۔ تاہم اگر سیا سی جماعتو ں کی جدوجہد کو پر کھا جا ئے تو بڑی جما عتو ںکی حد تک تصویر سیاست یو ں نظر آتی ہے کہ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان مر حوم کے فکر نظر کے مطابق سیا ست میں مفاہمت کا باب ہر گز بند نہیں ہو تا بات چیت کے دروازے ہمیشہ کھلے ہونے چاہیں چنانچہ آج بھی یہ در کھلا ہو ا ہے فرق سوچ اور مطلو ب کا ہے ، حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بات چیت کا دروازہ اس فکر میں وا کیا ہو ا ہے کہ ان کا ساتھ نہ چھوڑا جائے ہا تھ پکڑے رہیں ، جو اب کا فی حد تک ممکن نہیں رہا ہے ۔ پی پی 2018کے انتخابات کے بعد سے جس سیا سی راستے کی مسافر بنی ہوئی ہے اس میںواضح ایک ہی راستہ نظر آرہا ہے کہ اس تین سالہ دور میں اس نے لفاظی طورپر سیا ست ڈنکے چوٹ پر کی ہے لیکن سیا سی فائدہ خو د اتنا نہ پایا جتنا اس نے ہاتھ پکڑنے والو ں کو پہنچایا وہ بھی اس امید وبیم میں ایک وقت ایسا ہو گا کہ پی پی کا ہاتھ پکڑ لیا جائے گا ۔ اس بارے میں گزشتہ تین سال سے جب بھی یہ اطلاع گر دش کر تی ہے کہ معاملات طے پا گئے یا طے پا رہے ہیں تو سب سے پہلے یہ سوال اٹھتا ہے کیا اس نے ووٹ کو عز ت دو کا علم سرنگو ں کر دیا ہے ،ان کے باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے ، رابطہ جمہوریت میں سب سے ہو تا ہے اور ہو نا بھی چاہیے لیکن اصولو ں سے ہٹ کر کوئی بات نہیں ہونا چاہیے مسلم لیگ کا رابطہ اصولی ہے کہ نہ ہا تھ پکڑو نہ ہا تھ چھوڑ والی بات کی جاسکتی ہے بلکہ فیصلہ عوام اورسیا ست دانو ںپر چھوڑ دو ، خود غیر جانبدا ر بن جاؤ ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے چنانچہ مسلم لیگ( ن) پی پی کے اس ایجنڈے سے متفق نظر آرہی ہے کہ درون خانہ تبدیلی کے عمل کو بڑھوتی دی جائے ۔ جس کے بعد ہی مسلم لیگ (ن) کی جا نب سے کہا گیا ہے کہ آئندہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیر اعظم پارٹی کے صدر شہبا ز شریف ہو ں گے ۔مسلم لیگ کایہ اصول بھی رہا ہے کہ پارٹی کا سربراہ وہی ہو تا ہے جو وزیراعظم ہو تاہے اور صوبائی صدر وہ ہو تا ہے جو وزیر اعلیٰ کی کر سی پر براجما ن ہو جائے ۔نو از شریف اور مریم نواز نااہل قرار پا نے کی وجہ سے وزیر اعظم کے امید وار نہیں بن سکتے ، البتہ اب خبر گر م ہے کہ شہبا ز شریف سے راستہ صاف کر نے کے لیے ایف آئی اے کو ہد ف دیدیا گیا ہے ۔ لیکن یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جن غیر سیا سی قوتو ں کی جانب سے یہ یقین دہا نی کرائی گئی ہے کہ درون خانہ تبدیلی میں وہ غیر جانبدار رہیں گے ان کی جا نب سے ایسی کوئی یقین دہا نی نہیںہے کہ وزیر اعظم کے انتخاب پر بھی وہ غیر جا نب ہی رہیں گے ۔دیکھنا یہ ہے کہ ؛ پاکستان کے درودیو اروںپر جس طرح تقدیر بدلنے والے عامل نجو میوں کی پرچیا ں لگی ہو تی ہیں ، تبدیلی کی یہ پرچی بھی رمل و نجو م کے عاملوں کی طرح نہ ہو ۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن