4 171

ترجیحات کی درجہ بندی

اموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ سانسوں کی یہ ڈور ختم ہوتے ہی سارے کام بھی ختم ہوجاتے ہیں یا پھر یوں کہئیے کہ یہ کام کسی اور کے ذمے پڑجاتے ہیں۔ پھر وہی کام کوئی اور کرنے لگتا ہے۔ سکول اور کالج اور پھر یونیورسٹی کی تعلیم کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ بس اب تو ان کی شکل دوبارہ نہیں دیکھنی لیکن بچوں کے سکول جانے کیساتھ ایک بار پھر نئے سرے سے یہ رشتہ جڑ جاتا ہے۔ صبح سویرے سٹاپ پر ایک بزرگ دوست سے ملاقات ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں اپنی تعلیم ختم کی تو نوکر ی ملی اور پھر شادی کے بعد بچوں کا سکول جانا شروع ہوا، بچوں کی تعلیم ختم ہوئی تو ا ن کی شادیاں کروادیں، خود بھی ریٹائر ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ اب بچوں کے بچوں کو صبح سویرے بس سٹاپ پر چھوڑنے اور لینے آتے ہیں یعنی سانس کی ڈور کیساتھ کام کا سلسلہ چل رہا ہے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ زندگی نام ہی کاموں کا ہے۔ شاپر بھربھر کر گھر کا سودا سلف لاتے جاؤ لاتے جاؤ،آپ یہ سمجھیں گے کہ بس اب کے کچھ دنوں کا آرام مل جائے گا لیکن اگلے ہی دن کوئی دوسری چٹ مل جائے گی کہ فلاں فلاں چیزیں لیتے آئیے گا۔ لوجی پھر بازار جائیں اور شاپر بھر کر گھر لائیں۔ کبھی بجلی کا بل زیادہ آگیا تو جائیں دفتروں کے چکرشکر لگائیں اور دوچار پھیروں میں وہ کام نبٹا لیں۔ کبھی گیس کا بل زیادہ آیا تو تشویش ہوگی کہ کہیں پائپوں میں سے گیس تو لیک نہیں کررہی، سو مکینک بلائیں اور اس کیساتھ گھر کے پائپوں کا معائنہ کیجئے۔ سردی کے موسم میں ہیٹروں کی مرمت اور گیزر کی طبیعت بار بار پوچھئے۔ گرمی ہو یو پی ایس اور جنریٹر کے غم میں ہلکان ہوئیے، گویا کوئی دن ایسا نہیں کہ کام نہ ہو لیکن کوئی دن ایسا آبھی جائے کہ جس دن کام نہ ہو تو گھر میں بیٹھے بیٹھے یا لیٹے لیٹے لگتا ہے کہ آج کچھ کھو دیا ہے۔ زندگی میں کچھ کمی سی لگتی، کچھ ادھورا پن سا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے میں شریف لوگ کوئی پینڈنگ قسم کی چیز نکال کر اسے ٹھیک کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے کوئی استری یا اِکسٹنشن بورڈ یا کوئی پین جو آپ نے اپنی دراز میں رکھ چھوڑا ہے کہ جب فرصت ہوگی تو اسے ٹھیک کرلیں گے یوں اس چیز کی مرمت کرنے میں کام کرنے کی اپنی عادت پوری کرلیتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا گمبھیر نہیں ہے کہ دنیا کے ہر کونے میں انسان اسی طرح جیتے ہیں۔ بعض علاقوں میں زندگی کی رفتار تیز ہوتی ہے اور بعض میں قدرے کم۔ اسی رفتار کے مطابق انسانی زندگی اور اس سے متعلق کام بھی ہوتے ہیں۔
کاموں سے بھری اس زندگی نے ہمارے بعض رویوں کو عجیب رُخ دیا ہے۔ ہمارا ذہن جب کاموں کے حوالے سے ترجیحات بناتا ہے تو ان ترجیحات میں ظاہر سی بات ہے کہ ان کاموں کو زیادہ مقدم رکھا جاتا ہے کہ جن کی نوعیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔ جیسے آپ نے ایک ہی دن میں ہانڈی کا مصالحہ بھی لانا ہے، بجلی کے بل کی آخری تاریخ ہے جمع بھی کروانا ہے، ایک سسرالی عزیز کی عیادت بھی کرنی ہے، بچوں کی کتابیں خریدنی ہیں، تو ظاہر ہے اس میں بجلی کا بل پہلی ترجیح ہونی چاہئے کہ ایک خاص وقت تک ہی اسے جمع کروایا جاسکتا ہے۔ دوسری ترجیح بچوں کی کتابوں اور گھرکی اہم اشیاء کی خرید وفرخت وغیرہ کی ہونی چاہئے۔ سب سے آخر میں عزیز کی عیادت۔ لیکن جب آپ بنک گئے تو وہاں ایک لمبی قطار کھڑی ہے، آپ بل ایزی پیسہ والوں کے پاس بھی جمع نہیں کرواسکتے کہ یہ بل تصحیح شدہ بل ہے اور مخصوص برانچوں میں ہی جمع ہوں گے، اب آپ نے لائن میں لگنا ہی ہے۔ سوال اتنا سا ہے کہ آخر ی تاریخ تک آخر بات ہی کیوں پہنچی۔ میں نے اکثر لوگوں کو آخری تاریخیں گزر جانے کے بعد افسروں کی منتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ ان میں سے اکثر بلاوجہ اس کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں، چلو اگر کسی کا کوئی مسئلہ ہے تو کوئی بات بھی ہے۔ تنخواہ نہیں ملی، کسی بل کی ادائیگی کیلئے پیسوںکا بندوبست بروقت نہ ہوسکا،یہ سب عذر یقینی طور پر قابل قبول ہیں لیکن ایک بات تو یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ایک عجیب سی غیریقینی کی صورتحال رہتی ہے۔ آپ نے آخری تاریخ کو کوئی کام کرنا ہے اور اسی دن راستے بند ہوگئے، کسی وی آئی پی موومنٹ یا کسی کی ہڑتال کی وجہ سے یا کسی دوسری ہنگامی صورت کی وجہ سے آپ کیلئے مسائل بن سکتے ہیں۔ سو اِن مسائل سے بچنے کیلئے کم ازکم ہمیں اپنی ترجیحات کو ازسرنو مرتب کرنا چاہئے۔ زندگی جتنی تیزرفتار ہوئی ہے اس کیساتھ ساتھ سمارٹ بھی ہوئی ہے۔ اب تو بہت سے کام سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ سے باآسانی ہوسکتے ہیں اور کچھ نہیں تو ہم اپنی ناگزیر ترجیحات کو بروقت سرانجام دینے کیلئے کم ازکم اپنے فونز پرالرٹ یا ریمائنڈر تو لگا ہی سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے