p613 295

تشویشناک صورتحال

این سی او سی کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کی مثبت شرح میں روزافزوں اضافے کی بنا پر جو اقدامات تجویز کئے ہیں اس کے مطابق این سی اوسی کی جانب سے ملک کے مختلف شہروں میں کورونا کی مثبت شرح کی وجہ بننے والی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کورونا وائرس کی8فیصد سے زائد مثبت شرح والے اضلاع اور شہروں میں ایمرجنسی کے علاوہ نقل و حرکت پر سخت پابندی ہوگی، ہوٹل اور ریسٹورنٹس میں ہر قسم کی ان ڈور ڈائننگ پر پابندی اور ہفتے میں دو روز تجارتی سرگرمیاں بند اور دیگر دنوں میں رات8بجے تک کھولنے کی اجازت ہوگی، دو روز تعطیل کا فیصلہ وفاق اور صوبے خود کریں گے۔این سی او سی کے مطابق مذہبی و سیاسی اجتماعات پر مکمل جبکہ شادی بیاہ کی تقریبات کے ان ڈور انعقاد پر پابندی ہوگی، کھیلوں اور سماجی تقریبات پر مکمل پابندی ہوگی، تفریحی پارک مکمل طور پر بند رہیں گے جبکہ واکنگ اور جاگنگ ٹریکس ایس او پیز کیساتھ کھلے رکھنے کی اجازت ہوگی۔این سی او سی کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ یہ پالیسی11اپریل تک نافذ العمل رہے گی اور7 اپریل کو این سی او سی میں جائزہ لیا جائے گا کہ ان پابندیوں پر اطلاق جاری رہے گا یا ان میں نرمی کی جائے گی۔کورونا کی تیسری لہر یقینا ہر سطح پر احتیاط کی متقاضی ہے اور عوام کو چاہئے کہ وہ ایس اوپیز پر خود اپنے مفاد میں عملدرآمد یقینی بنائیں۔امر واقع یہ ہے کہ کورونا وائرس کے آغاز سے اب تک ایک سال کے عرصے میں پورا ملک اور معاشرہ ایک طرح سے جمود کا شکار ہے، دوسری طرف مشکل امر یہ ہے کہ عدم احتیاط کا بھی متحمل نہیں ہوا جا سکتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب مکمل لاک ڈائون اور سختیوں کے عوام متحمل نہیں ہوسکتے اور خدشہ ہے کہ عوام اس کی اعلانیہ خلاف ورزی پر اُتر آئیں، دیکھا جائے تو عملی طور پر اس کی کھلی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ کورونا وائرس کی ابتداء میں کہا جارہا تھا کہ ویکسین ایجاد ہونے تک ہمیں سخت فیصلے کرنے ہوں گے، اب ویکسین تو آگئی ہے لیکن ویکسین کی قیمت اتنی ہے کہ اس کا متحمل نہیں ہوا جا سکتا اور نہ ہی حکومت کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ سب کو سرکاری طور پر ویکسین لگائی جاسکے۔ ویکسین آنے کے باوجود اب بھی اگر دیکھا جائے تو ہم اسی جگہ کھڑے ہیں جہاں گزشتہ سال کھڑے تھے۔ این سی او سی کے فیصلے انسانی جانوں کے ضیاع اور صحت عامہ کے تحفظ کیلئے ضروری ہیں، ان کے نفاذ اور ان پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی دوسری بات ممکن نہیں لیکن اس سوال کا بھی جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ جب عوام ہر طرف سے متاثر اور کاروبار وروزگار کے متاثر ہونے سے خدانخواستہ لوگ بھوکے مرنے لگیں گے تو اس کا بھی حکومت کے پاس کوئی حل ہونا چاہئے۔ ان سطور کی اشاعت تک تعلیمی اداروں کو کھولنے یا بند رکھنے کے حوالے سے فیصلہ آچکا ہوگا جس سے قطع نظر کورونا سے جتنا متاثر تعلیم اور طالب علم ہوئے ہیں اسے اگر سرفہرست نقصان گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا، یہ ساری صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پابندیوں کی بجائے حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کیساتھ معیشت ونظام تعلیم کا پہیہ چلانے کی ضرورت ہے جس کیلئے ہر سطح پر تعاون کا مظاہرہ کیا جانا چاہئے۔اسے افسوسناک امر ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہکوروناسے متعلق ایس او پیز پر لوگوں کی جانب سے عملدرآمد نہ کرنے کے پیش نظر سرکاری ہسپتالوں میں او پی ڈیز کو دوبارہ سے بند کرنے کی تجویز پر غور شروع کردیاگیاہے ۔بگڑتی صورتحال کے باعث مریضوں کے معائنہ کا سلسلہ بند کرنے کا خدشہ ہے۔عوام صرف اپنے عدم احتیاط کے باعث کس نہج پر جارہے ہیں اور صورتحال کس قدر مشکل ہوتی جارہی ہے اس کا ادراک کسی کو نہیں، ہسپتالوں میں علاج کی بندش کی نوبت آئے تو کتنے مریض متاثر ہوں گے اور کورونا کے علاوہ کتنے مریض علاج معالجہ کی سہولتوں کی محرومی کے باعث سنگین طبی مسائل سے دوچار ہوں گے اور ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ گزشتہ سال وباء کی ابتداء پر علمائے کرام نے جس مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا تھا اور مساجد میںاحتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں، اس سال وہ بھی نظر نہیں آتیں۔ ہر مکتبہ فکر کے افراد کو صورتحال کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے اور ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور عوامی مفادمیں حکومتی پابندیوں پر کسی تعزیر کے خوف سے نہیں بلکہ رضاکارانہ طور پر عملدرآمدکی ضرورت ہے۔ وباء پھیلائو کی روک تھام کیلئے جو بھی تدابیر ضروری ہوں ان تدابیر کو اختیار کرتے ہوئے کاروبار،تعلیم،عبادت اور روزمرہ کے امور نمٹائے جائیں، یہی ایک راستہ ہے جسے اختیارکرنا ممکن ہے۔جب تک ہم من حیث القوم اس مسئلے کو سمجھنے اور اس کے تقاضوں کی تفہیم کے بعد خود اس سنگین صورتحال سے نکلنے کی سعی پیہم نہیں کریں گے کوئی حکومتی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔

مزید پڑھیں:  سانحہ قصہ خوانی اور ا نگریزوں کا کردار