1 561

جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن

ایبٹ آباد میں ویسے تو ہمارے لاتعداد دوست احباب اورکرم فرما ہیں جو سوشل میڈیا پر خاصے فعال رہتے ہیں‘ ان میں زیادہ تر اہل علم وقلم ہیں کہ اس قافلے سے ہمارا بھی کچھ نہ کچھ تعلق واسطہ ہے‘ ان کے علاوہ اہل فن بھی ان کرم فرماؤں میں شامل ہیں۔ تاہم ان میں سے سب سے زیادہ فعال محمود حیدری صاحب ہیں جن سے پہلا تعارف اس وقت ہوا جب ہم نے ریڈیو پاکستان ایبٹ آباد کے سٹیشن ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینا شروع کیں۔ حیدری صاحب تب وہاں پروگرام میں بطور اناؤنسر‘اینکر شرکت کرتے تھے‘ ان کی آواز میں ریڈیو کی ڈیمانڈ کے مطابق تمام تر خصوصیات کے علاوہ ان کا تلفظ اور انداز من موہنا تھا‘ اوپر سے مرنجان مرنج قسم کی شخصیت‘ دل میں جلد ہی جگہ کر گئے‘ اور جیسا کہ بتا چکے ہیں کہ موصوف سوشل میڈیا‘ خصوصاً فیس بک پر بہت ہی فعال رہتے ہیں‘ یعنی ایبٹ آباد کے حوالے سے ان کی پوسٹ کی ہوئی تصویریں اورمعلومات اب تو خاصے کی چیز ہیں انہوں نے گزشتہ دنوں وہاں پر ہونے والی شدید بارشوں سے پہلے گرمی اور بجلی لوڈ شیڈنگ پر کچھ پوسٹیں شیئر کیں اور ہم نے ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے پشاور کی حالت زار کا حوالہ دیا تو اپنا غم بھول کر الٹا ہمارے لیے دعاؤں کی پٹاری کھول دی‘ تاہم اچانک موسم میں تبدیلی اور گابھن بادلوں کے تواتر کے ساتھ برسنے سے جو صورتحال بنی اس حوالے سے انہوں نے ممکنہ سیلابی صورتحال کے بارے میں خبرداری کی پوسٹیں شیئر کیں تو ہم نے انہیں ایبٹ آباد کے ضمن میں معمول کی قدرتی مہربانیاں سمجھتے ہوئے نظرانداز کیا ایسا عموماً ہوتا رہتا ہے‘ اور اس کا نظارہ ہم نے اپنے ایبٹ آباد کے ڈیڑھ سالہ قیام میں بارہا کیا ہے برساتی موسم میں خود ہمارا ریڈیو پاکستان آدھا آدھا پانی میں ڈوب جایا کرتاتھا اور ہمیں بتایا گیا کہ اس صورتحال کی ذمہ داری ریڈیو کی پچھلی سمت احاطہ دیوار کے ساتھ جن صاحب کی جائیداد ہے وہ نکاسی کے لئے نالہ تعمیر کرنے کی مبینہ طور پر اجازت نہیں دیتے اس لئے پانی اکٹھا ہو کر تالاب کی سی صورتحال پیدا کر دیتا ہے‘ خیر بات ہو رہی تھی حیدری صاحب کی پوسٹ کی ہوئی ا ن تصویروں کی جن میں ایبٹ آباد کے بعض علاقے حالیہ بارشوں سے متاثر ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے اور ابھی ہم ان پرکوئی توجہ دینے کو تیار نہیں تھے کہ اچانک ان بارشوں کے خطرناک نتائج نے پورے ملک میں تشویش کی لہر دواڑ دی اور ملک بھر کے اخبارات میں ایوب میڈیکل کالج کی حالت زار کی تصویریں جبکہ سوشل میڈیا کے کئی ایپس یعنی ٹوئٹر‘ یوٹیوب‘ وٹس ایپ‘انسٹاگرام وغیرہ وغیرہ پر ویڈیوز بھی وائرل ہیں جن میں لوگ اپنے مریضوں کی چار پائیاں ادھر سے ادھر لیجاتے ہوئے نہیں ”سیلابی صورتحال“سے بچانے کے لئے تگ و دو کر رہے ہیں‘ گویا بقول غلام بھیک یزنگ
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے
رہنماؤں کو نہیں خود بھی پتہ رستے کا
راہ روپیکر حیرت ہے خدا خیر کرے
اگرچہ اس صورتحال پر سوشل میڈیا پر ٹرولز نے ایک طوفان برپا کر دیا ہے اور یہ واحد ایسا معاملہ ہے جس کا”سرکاری ٹرولز“ کو کوئی جواب سوجھ رہا ہے نہ ان سے کوئی بات بن رہی ہے کہ اس کے لئے جواز ڈھونڈ کر مخالفین پر جوابی تابڑ توڑ حملے کئے جائیں‘ البتہ ہم اس موقع کوغنیمت جانتے ہوئے حیدری صاحب کو”مبارکباد“ دینا چاہتے ہیں یعنی انہیں حرف شکایت زباں پر لانے کی بجائے شکرانے کے نوافل ادا کرنے چاہئیں کہ آج اٹلی کے شہر وینس کی وہ خصوصی حیثیت ایبٹ آباد نے ختم کر دی ہے اور اب ایبٹ آباد بھی پانی پر تیرتا ہوا شہر بن چکا ہے‘ اس لئے بہتریہی ہو گا کہ حیدری صاحب اور ان کے دیگر ساتھی حکومت سے استدعا کریں کہ وہ ایبٹ آبادمیں خصوصی کشتیاں چلانے کا اہتمام کرے‘ اور اس حوالے سے دنیا بھر سے سیاحوں کو اس وینس ثانی کو دیکھنے کی دعوت دے‘ ایبٹ آباد ویسے بھی کسی زمانے میں سیاحت کے حوالے سے اپنا خصوصی مقام رکھنے کے علاوہ کاغان‘ ناران‘ بٹا کنڈی‘ گلیات‘ایوبیہ‘ ٹھنڈیانی‘ جھیل سیف الملوک اور آگے شمالی علاقہ جات تک پہنچنے کے لئے کلیدی اور پہلے پڑاؤ کی حیثیت سے بنیادی اہمیت کا حامل شہر تھا اور اب بھی ہے‘ اور اگر اس نئی صورتحال میں اس نے اٹلی کے شہر وینس کے بعد پانی پر تیرنے والے شہر کی حیثیت سے بھی اپنا مقام متعین کر لیا تو پھر ایبٹ آباد والوں کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند