جاوید اختر کی پاکیٔ داماں کی حکایت

مشہور ومقبول شاعر فیض احمد فیض کی یاد میں ہر سال لاہور میں منعقد ہونے والے فیض امن میلے میں بھارتی شاعر اور آرٹسٹ جاوید اختر نے پاکستان میں ممبئی حملوں کے ذمہ داروں کی موجودگی اور آزادانہ گھومنے کا الزام عائد کیا ۔جاوید اختر نے گلے شکوے کے انداز میں کہا کہ میرا تعلق ممبئی سے ہے ہم نے دیکھا کہ ہمارے شہر پر کیسے حملہ ہوا تھا۔یہ لوک ناروے اور مصر سے تو نہیں آئے تھے۔وہ لوگ ابھی بھی آپ کے ملک میں گھوم رہے ہیں۔تو یہ شکایت ہندوستانیوں کے دل میں ہو تو آپ کو برا نہیں ماننا چاہئے ۔جاوید اختر کی اس بات پر شرکاء نے خوب تالیاں بجائیں، تقریب کے منتظمین نے بھی جاوید اختر کی اس بات پر اپنی وضاحت کرنے کی کوشش نہیں کی ۔جاوید اختر ایک ٹھیٹھ بھارتی ہیں ۔ان کی بیوی بالی ووڈ کی اداکارہ شبانہ اعظمی ہیں جو برصغیر کے معروف شاعر کیفی اعظمی کی بیٹی ہیں۔جاوید اختر اور شبانہ اعظمی دونوں بھارت میں ہندوئوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے اس طرح کی شُرلیاں چھوڑتے رہتے ہیں ۔ایک اچھے بھلے ادبی پلیٹ فارم پر اچانک سیاست کرنا اور سیاست بھی متنازعہ موضوع پر کرنا ان کی اس مجبوری کا عکاس ہے ۔برسوں پہلے شبانہ اعظمی کو بھارتی میڈیا پر اس وقت آنسوئوں سے روتے ہوئے دیکھا گیا تھا جب انہیں ممبئی میں کسی ہندو نے کرائے پر مکان نہیں دیا تھا ۔شبانہ اعظمی نے بھارت کے فن وثقافت کے لئے اپنی خدمات گنواتے ہوئے شکوہ کیا تھا کہ ان کی خدمات کا یہی صلہ ہے کہ محض مسلمان ہونے کی وجہ سے کرائے پر مکان نہیں دیا جاتا ۔بعد میں جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے خود کو کس طرح بھارتی انتہا پسندوں کی نظروں میں پاک پوتر بناکر کرائے کا مکان حاصل کیا اس کا اندازہ نہیں ہوسکا ۔غالباًدونوں بھارت کے انتہا پسندوں کو وفا کا یقین دلانے میں کامیاب ہو ئے ۔اب ان کا پاکستان کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان پر الزامات اور طنز کے تیر برسانا ان کی وفاداری پر نئی مہر تصدیق ثبت کردے گا ۔جاوید اختر کے اس اندازِ بیاں پر جہاں بھارتی ہندو خوش ہیں اور سوشل میڈیا پر ان کی جرأت اور بے باکی کی تعریف کر رہے ہیں وہیں پاکستان میں ان کے اس رویئے کو آداب مہمانی کے خلاف قراردیا جا رہا ہے ، کئی پاکستانی سوال اُٹھا رہے ہیں کہ اگر ممبئی حملوں کا تعلق ناروے سے نہیں تھا تو پاکستان کی جیل میں زندہ وسلامت بھارتی نیوی کے حاضر سروس کرنل کلبھوشن یادیو کا تعلق ناروے سے ہے ۔کلبھوشن یادیو پاکستان کی حدود میں چنے فروخت کرنے نہیں آیا تھا بلکہ دہشت گردی کا ایک ایسا نیٹ ورک چلا رہا تھا جو لاتعداد پاکستانیوں کے قتل میں ملوث تھا ۔جاوید اختر کو اجمل قصاب تو یاد رہا مگر وہ کلبھوشن یادیو کو یکسر بھلا بیٹھے اور فیض امن میلے کے کسی منتظم نے جاوید اختر کو کلبھوشن یادیو کی یاد دلانے کی کوشش نہیں کی ۔اللہ بخشے فیض صاحب مرحوم بھی ایک خوبصورت او مقبول شاعر تھے ان کا قلم جنوبی افریقہ سے فلسطین تک تمام مظلوموں کے حق میں روشنائی کے آنسو بہاتا رہا
مگر مجال ہے فیض صاحب نے کبھی کشمیر کا نام نوک ِزبان وقلم پر لایا ہو۔ان کا قلم کشمیریوں کے حق میں روشنائی کا ایک آنسو نہ بہا سکا حالانکہ کشمیر وہی علاقہ تھا جہاں فیض کی ملاقات سری نگر کے مشہور کالج کے پرنسپل محمد دین تاثیر المعروف ایم ڈی تاثیر کی جرمن سالی ایلس سے ہوئی تھی اور وہ ڈل کے کنارے پر جرمن حسینہ کی زلفوں کے اسیر ہوگئے تھے اور پھر اسی شہر میں شیخ محمد عبداللہ نے اسی خاتون سے ان کا نکاح پڑھایا تھا اور ہنی مون کے خوبصورت دن اور لمحات بھی فیص اور بیگم ایلس فیض نے کشمیر کی حسین اور مسحور کن وادیوں میں گزارے اور بِتائے تھے ۔ فیض صاحب کے نکاح خواں شیخ عبداللہ وزیر اعظم کشمیر کے منصب سے اتار کر گرفتار کئے گئے تو ان کی گرفتار ی کا دورانیہ دہائیوں پر محیط ہوگیا مگر فیض احمد فیض کا انقلابی اور مظلوم دوست قلم اپنے نکاح خواں کے دکھوں اور مظالم پر سکوت کا شکار ہو گیا ۔اہل کشمیر کا یہ گلہ ہمیشہ موجود رہا ۔جاوید اختر نے فیض صاحب کی یاد میں منعقد تقریب میں یک طرفہ کہانی سناکر دل کی بھڑاس بھی نکالی اور بھارتی انتہا پسندوں سے بھی واہ واہ حاصل کرلی ،بھارتی مسلمانوں سے گلہ ہونا بھی نہیں چاہئے وہ جس عدم تحفظ کا مستقل شکار ہیں وہاں انہیں پاکستان کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرنا پڑتی ہیں ۔ان کی بقا ء اسی میں ہے مگر اس کے باوجود بھارتی انتہا ء پسند مسلمانوں کی وفاداری پر شک ہی کرتے نظر آتے ہیں، بھارتی رکن لوک سبھا اسد الدین اویسی بھی ان بھارتی مسلمان راہنمائوں میں شمار کئے جاتے ہیں جو ہندوانتہا پسندوں کو اپنی وفاکا یقین دلانے کے لئے گاہے بگاہے پاکستان پر تنقید کرتے ہیں
مگر انتہا پسند ان کی وفا ئوں کا اعتبار کرنے پر تیار نہیں اس کا ثبوت چند دن قبل اسد الدین اویسی کے دہلی والے گھر پر انتہاء پسندوں کا پتھرائو ہے جس میں گھر کے شیشے ٹوٹ گئے او ربھارتی میڈیا نے اسے پورٹ کیا ۔یہ کھڑکیوں کے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی کرچیاں نہیں اسد الدین اویسی کی وفاداری کے شیشے کی کرچیاں تھیں ۔بھارت کے مسلمان راہنما اُلٹا بھی لٹک جائیں انتہاپسندوں کو ان کی وفاداری پر شک ہی رہے گا کیونکہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے انتہا ء پسندی کو بھارت کا مقبول چلن اور فیشن بنادیا ہے، موجودہ حالات میں پاکستانی سفارت خانوں کو بھی ویزے دیتے وقت افراد کی ذہنی سوچ وساخت کا خیال رکھنا چاہئے ۔اس طرح کسی پاکستانی آرٹسٹ نے بھارت میں بیٹھ کر کلبھوشن یادیو کی حرکتوں کا گلہ کیا ہوتا تو ایک طوفان اُمڈ چکا ہوتا اور انتہاپسندوں نے اس ہوٹل کا گھیرائو کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہ کی ہوتی جہاں وہ مقیم ہوتا۔پاکستانی دنیا کے عجیب لوگ ہیں جو اپنی قومی بے عزتی پر بھی پوری دیانت داری سے تالیاں پیٹتے ہیں ۔ یہ احساس کمتری اور خود مذمتی کا ایک انداز ہے جس نے حالات سے جنم لیا ہے ۔حالات ِزمانہ کا شکار قوم کے اندر خود اعتمادی اور خود پسندی کا فقدان پیدا ہونا فطری ہوتا ہے ۔اکثر دیکھا گیا کہ پاکستان کے لوگ کسی بھی غیر کے آگے دلیل کے میدان میں خود ساختہ پسپائی اختیار کرتے ہیں۔یہاں تک کہ لوگ سرحد کو لکیر اور حقیر تک کہنے سے باز نہیں آتے حالانکہ یہ لکیر نہیں ان کی جدید قومی شناخت اور پہچان ہوتی ہے اور اپنی شناخت کوچھپانا اور اس پر پچھتانابھی شاید حالات سے جنم لینے والا کوئی عارضہ ہے ۔اس پر لوگوں کو دوش دینا شاید مناسب نہیں۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟