maryam gilani 11

جو ا وج ایک کا ہے دوسرے کی پستی ہے

اس خطے کے حالات بدل رہے ہیں۔ اس خطے کے ہی کیا دنیامیں ہی تبدیلی آرہی ہے ۔بڑے برج اپنی جڑیں چھوڑ رہے ہیں اور نئے درخت طاقت پکڑ رہے ہیں۔ بار بار ذہن علامہ اقبال کے اس مصرع کی طرف لوٹ جاتا ہے کہ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں اور پھر خیال آتا ہے کہ:
چمکنے والے مسافر!عجب یہ بستی ہے
جو اوج ایک کا ہے ‘ دوسرے کی پستی ہے
یہ وہ وقت ہے جس میں امریکہ کی عالمی طاقت ہونے کی بساط لپیٹے جانے کا منظر ابھر رہا ہے ۔ افغانستان سے امریکیوں کا انخلاء اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ اس انخلاء کے ساتھ ساتھ اس وقت بین الاقوامی مسلسل دنیا کو یہ دکھانے اور باور کروانے کی کوشش کر رہا ہے کہ امریکہ کے جاتے ہی افغانستان میں ایک ابتری مچ گئی ہے ۔ لوگ مارے جارہے ہیں اور طالبان جو نہ جانے کس بلا کا نام ہے نے افغانستان کو نگلنا شروع کر دیا ہے ۔ امریکیوں کے لئے مسلمانوں کا تصور وہی ہے جو ہنری کسنجر نے اپنی ایک کتاب میں بیان کیا تھا کہ مسلمانوں کا ذکر آتے ہی ذہن میں گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر ایک باریش شخص کا تصور آتا ہے ۔جس کے ہاتھ میں ایک چمکتی ہوئی تلوار ہے جسے ہوا میں لہراتا وہ اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑا رہا ہے اور اس کی لمبی داڑھی ہوا میں اڑ رہی ہے ۔ یہی تصور شاید اب
طالبان کے حوالے سے امریکیوں کے ذہن میں ہو گا اور اس میں خود کش جیکٹ کا اضافہ ہو گیا ہو گا لیکن اس حقیقت سے مفر ممکن نہیں کہ امریکی اب یہ جنگ لڑ لڑ کر تھک چکے تھے ۔ ان کے لئے نفسیاتی اور معاشی دونوں ہی طور سے اس جنگ کو برقرار رکھنا مشکل ہوتا چلا جارہا تھا ۔ اس لئے اس دعوے کے ساتھ کہ وہ ہمیشہ ہی افغانستان کی مدد کے لئے تیار ہیں انہوں نے افغانستان سے اپنے انخلاء کا آغاز کیا ادھر طالبان کہتے یں کہ اگر ہم چاہیں تو وہ ہفتوں میں افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیں ان کی اس بات سے مجھے کوئی اچھنبا محسوس نہیں ہوتا کیونکہ طالبان افغانستان کے رہائشی ہیں۔ افغانستان کے اصلی والی وارث بھی وہ ہی ہیں۔ جب امریکی افواج اپنی پوری طاقت اور طمطراق کے ساتھ افغانستان میں موجود تھیں یہ تب بھی وہاں تھے اور یہ ان کے وہاں سے جانے کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گے اتنے عرصے میں انہیں حکومت کے اصل دھارے سے بزور شمشیر باہر رکھا گیا لیکن اب یہ ممکن نہ ہو پائے گا۔ افغانستان کے معاملات اور اس رجحان کو سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی تجزیہ کرنے والا افغان قوم کے مزاج اور اس قوم کے رنگوں سے
واقف ہو۔ ا فغان پٹھانوں اور فارسی بانوں کے درمیان موجود مزاج اور رویئے کے فرق سے بخوبی آشناء ہو ۔ پھر جغرافیائی محل وقوع اور اس محل وقوع میں کہاں کہاں کون کون سے لوگ موجود ہیں اس سے بھی واقفیت رکھتا ہو ۔ افغان معاشرہ ایک تہہ درتہہ معاشرہ ہے ۔ اس کی گنجلتا اور اس کی سادگی میں ایک عجب امتزاج ہے جسے سمجھے بنا اس معاشرے اور ملک کو سمجھنا ناممکن ہے۔ ہر معاشرہ ہی تہہ درتہہ ہوا کرتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ ایشیائی ملکوں کے حوالے سے امریکہ نے اپنے دل میں ایک خوف مجتمع کر رکھا ہے اور وہ اس خوف کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ امریکہ صرف مسلمانوں سے ہی نہیں چین سے بھی اسی طرح خوفزدہ ہے کیونکہ اسے جڑ والے درخت اوان کے رویئے سمجھ نہیں آتے ۔ مہاجروں اور چور ڈاکوئوں کی بنیاد سے پروان چڑھنے والا معاشرہ یقیناً اصول و ضوابط او روایات کی جڑ رکھنے والے معاشروں سے خوفزدہ ہی محسوس کرے گا۔ کچھ خوف تو ابتدائی طور پر چوروں ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ بنیاد ہونے کی وجہ امریکہ کی جنیاتی بنت کا حصہ ہو گا اور کچھ ان معاشروں کے گنجلک کیفیات ان کو پریشان کرتی ہونگی بہرحال افغانستان سے امریکی انخلاء اور طالبان کا یوں یکدم عود کرآنا کوئی ایسی حیران کن بات نہیں۔ طالبان صرف امریکیوں کی موجودگی کے باعث دبے ہوئے تھے ان کے جانے سے وہ نہ صرف آزاد ہو گئے ہیں بلکہ واپس افغانستان سنبھال لینے کا عزم بھی رکھتے ہیں ایسے میں ذرا ایک لحظہ مڑ کر یہ بھی دیکھئے کہ پاکستان حکومت کا حالیہ فیصلہ کہ پاکستان کی سرزمین امریکی اڈوں کے لئے نہ دی جائے گی اور طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لئے استعمال نہ ہو گی ایک بہت احسن فیصلہ ہے۔ آنے والے دنوں میں اس فیصلے کی اہمیت اور بھی اجاگر ہو گی یہ نہ صرف حکمت عملی کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ ہے بلکہ اس سے پاکستانیوں کا مورال بھی بہت بلند ہوا ہے ۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کی صورت میں اس خطے سے امریکی مفادات کا خاتمہ نہیں ہو گا بلکہ اس کی شکل بدل جائے گی۔ امریکہ اس خطے میں دیگر صورتوں میں وارد ہونے کی کوشش کرے گا۔ کچھ بنیادیں تو وہ پہلے ہی بنا چکا ہے اس حوالے سے انشاء اللہ اگلے کالم میں بات ہو گی۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر