”خاموش اشارے”

آج کل ہر نوجوان کا سر ورق اس قدر دردناک ہے کہ کتاب کھولنے سے پہلے ہی دل ڈولنے لگتا ہے۔پاکستان کی نوجوان نسل تین حصوں میں منقسم ہے۔کچھ کے ہاتھوں میں گٹار،کچھ کے ہاتھوں میں ہتھیار اور باقی ہتھیار اور گٹار کے دوراہے پر کھڑے بیروزگار۔ ہر چہرہ اپنی بے بسی کا عملی نمونہ پیش کر رہا ہے۔عملی صلاحیت سے مستفید ہونے والا نوجوان طبقہ بھی روزگار نہ ملنے کے سبب مالی مشکلات سے دو چارہے اور ان نوجوانوں نے مشکلات سے نمٹنے کے لئے اپنی سوچ کا دھارا تبدیل کرلیا تاکہ پیٹ کی آگ کو بجھایاجاسکے۔سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ بدقسمتی سے نوجوان نسل نے منشیات اور سمگلنگ کا دھندہ اختیار کیا اور ذلت ورسوائی کا راستہ اپنا کر من کی آگ کو بجھانا چاہا۔ان کے ہاتھوں میں قلم کے بجائے "کلاشنکوف” ہے۔نوجوانوں کا یہ گروہ لوٹ مار،ڈاکہ زنی اور دیگر گھنانے جرائم میں ملوث ہوجاتا ہے اور ان سے کوئی بھی جرم کوئی بھی سفاکیت بعید نہیں بعض نوجوان حالات سے تنگ آکر خودکشی کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔اخر اس کی ذمہ داری والدین پر ہے یا حکمرانوں پر۔میرے نظریئے سے شاید چند ایک کو اختلاف ہو۔میرے نزدیک ارباب اختیار اور والدین دونوں برابر کے شریک ہیں کیونکہ والدین کی اولین ترجیح بچوں کی صحیح تربیت ،اسی طرح ریاست کی ذمہ داری عوام کی فلاح وبہبود کے لئے دن رات کام کرناہے۔ زندہ مثال کویڈ 19 یعنی کورونا میں حکومت کی پابندیاں ملاحظہ فرمائیں ۔سماجی دوری،گھر پر رہے،پرہجوم جگہوں پر جانے سے گریز کریں, مسجد جانے پر پابندی وغیرہ وغیرہ۔اس کا مطلب ہے کہ آج اگر ارباب اختیار ہدایات جاری کریں کہ ہر نشہ اور چیز سے دور رہیں۔ کیا خیال ہے کورونا میں کتنے پابندی سے ہدایات پر عمل پیرا تھے،نشے کا نام تک کوئی نہیں لے گا ،اسی طرح والدین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے ، بچوں کی تربیت پر اور خاص طور پر ہر غیرقانونی اور غیر اخلاقی چیز کو کمائی کا ذریعہ نہ بنائیں۔دور حاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ منشیات ہے جس نے زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔منشیات ہمارے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔یہ خاندانوں کو تباہ کرسکتی ہے،زندگیوں کو برباد کرسکتی ہے۔نشے میں وعدے ٹوٹتے ہیں اور جب وعدے ٹوٹ جائیں تو رشتے ٹوٹنے شروع ہوجاتے ہیں اور آخرکار گھر کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے ۔نشہ ایک نفسیاتی ،جسمانی، روحانی اور معاشی بیماری ہے۔نشہ کرنے والا ہر شام کو نشہ چھوڑ کے سوتا ہے اور صبح اٹھ کر پھر نشہ کرتا ہے۔کتنی اذیت ناک بات ہے کہ سگریٹ،ائس،شراب،ہیروئن اور دوسرے نشہ اور ادویات کی مخالفت تو سب کرتے ہیں مگر ان لعنتوں کا سدباب کرنے میں مخلص کوئی بھی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج سکولز ، کالجز، یونیورسیٹیزوغیرہ میں جابجا دھڑلے سے منشیات کی فروخت ہو رہی ہے شہر بھر میں نشے کے عادی افراد کی بھرمار اور ان کو منشیات کی سپلائی کا باقاعدہ اور منظم نظام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے اور روکنے والاکوئی نہیں یہاں تک کہ پورے معاشرے پر بے حسی کا الزام لگانابھی غلط نہ ہوگاہم بحیثیت مسلمان اپنی زندگی کی قدر کرنے کی بجائے اسے برباد کرنے پر تلے رہتے ہیں ۔مجھے حیرت ہوتی ہے ان جوانوں پر جو اب بھی مستقبل بینی کو ایک ڈھونگ سمجھ رہے ہیں،دراصل یہ وہی لوگ ہیں جو ساحل سمندر پر کھڑے ہوکر سمندر کی گہرائی کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اصل میں یہ دماغ کی وسعت سے ناآشنا ہیں۔ دورحاضر کے لوگ جنہوں نے دن رات محنت کرکے اسی دماغ سے کام لے کر ستاروں پہ کمندیں ڈال دی ہیں،خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ابھی تک ہم اس دماغ کی وسعت کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکے۔انسان کی ازل سے خود کو منوانے کی خواہش رہی ہے اور اس نے خود کو منوایا بھی لیکن جب اس خود کو منوانے والے انسان کے اندر کا انسان کمزور اور خوفزدہ ہوا تو یہی انسان خود ہی کسی ایسی چیز کے آگے جھگ گیا جسے اس نے اپنے سے زیادہ طاقتور تصور کیا۔ اسی طرح اس نے بھی سانپ کو دیوتا کہنا اور سمجھنا شروع کر دیا۔نتیجہ یہ ہے کہ قوم فکری، روحانی اور جسمانی اعتبار سے مفلس ہوتی جارہی ہے۔نشہ آور چیزوں کے رسیا عموما نوجوان ہوتے ہیں جنہیں ابھی زندگی کے تجربات نہیں ہوتے یعنی اتنا بھی نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے درمیان کتنا کم فاصلہ ہے۔وہ موت سے قبل آپنے آپ کو زندہ درگور کر لیتے ہیں ۔منشیات کی روک تھام کسی ایک فرد ،ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس مسئلے کو ملکی وقومی سطح پر مشترکہ انداز سے حل کیا جانا چاہیے ۔ٹیلیویژن، اخبارات ،ریڈیو, سوشل میڈیا وغیرہ کو اس لعنت کے خلاف صدق دل سے معرکہ آرا ہونا چاہیے ۔تعلیمی اداروں میں اساتذہ کڑی نظر سے نوخیز نسل کا جائزہ لیں،والدین اپنے بچوں کی تربیت پرخصوصی توجہ دیں اور ان پر کڑی نظر رکھیں ۔کچھ نوجوانوں کو میں نے دوسری دنیا کا باسی دیکھا یعنی خیالی دنیا اور حقیقی دنیا، خیالات کی جنت میں بسیرا کرنے والے اپنی خیالی جنت کے خود ہی حاکم ہوتے ہیں،اپنی دنیا میں وہ لیڈی ڈیانا سے جوتے پالش کراتے ہوں گے کیونکہ وہاں خیالی دنیا میں وہ خود سیاہ و سفید کے مالک و مختار ہوتے ہیں ۔ نوجوانوں کی جن کیفیات کا ذکر میں کر چکا ہوں وہ نوکیلے پتھر ہیں جن سے گزرتے ہوئے پائوں لہولہان ہوجاتے ہیں۔ان نوکیلے پتھروں سے میں بھی ننگے پائوں گزر چکا ہوں۔ میں نے بھی اپنے دل میں درد کی ٹیسیں محسوس کی تھیں،میں بھی خلوتوں میں آنسو بہاتا ،جلوتوں میں مسکراتا رہا۔ میں بھی ایب نارمل نہ ہوتے ہوئے بھی خود کو ایب نارمل سمجھتا رہا۔میں نے بھی خودکشی کا سوچا،موت کی تمنا بھی کی۔میں اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے لکھ رہا ہوں کیونکہ کسی کے دل کی چوٹ کو وہی جانتا ہے جس نے خود دل پر چوٹ کھائی ہو۔ یقین کریں اب گزشتہ زندگی پہ نظر دوڑاتا ہوں تو خود پہ ہنسی آتی ہے کہ اتنی قیمتی زندگی کو میں نے ارزاں سمجھا۔جب میں نے خود مشقیں شروع کیں۔حساسیت جو کبھی زہر تھآ اسے تریاق بنایا،لوگوں کے غم کو محسوس کیا تو میں نے دیکھا مبتلائے درد دل ہوکر محسوس کیا کہ میں ایک نئے اور انوکھے تجربے سے گزررہا ہوں لیکن اس بحر غم سے نکل کر محسوس کیا کہ لاکھوں انسان مجھ سے پہلے اس پل صراط سے گزر چکے ہیں اور لاکھوں بعد میں گزریں گے۔میری یہ تحریر اس دور کے جوانوں کے لیے ہے خود کو اور اپنی حساسیت کو زہر نہ بنا۔ اسے تریاق بنا خود اپنے لیے بھی،خاندان کے لئے بھی اور پورے معاشرے کے لئے بھی۔ایک ہیرونچی کی زبانی۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی