خانہ انوری کجا باشد

یہ کہاں آگئے ہم ‘ ترے ساتھ چلتے چلتے ‘ ایک انڈین فلم کا یہ مشہور گانا تو آپ نے ضرور سنا ہو گا ہماری بھی حالت بالکل اسی نغمے کی سی ہو رہی ہے’ گزشتہ دو تین کالموں میں حالات حاضرہ پرتبصرہ کرتے کرتے حالات نے ایک بار پھرہمیں مقامی مسائل پر توجہ دینے پر مجبور کردیا ہے اور اس حوالے سے ہندکو زبان میں ایک چٹخارے دار محاورہ بھی موجود ہے جس کے آخری نصف حصے کو نقل کرنے میں کوئی قباحت نہیں جو کچھ یوں ہے کہ ۔۔۔۔۔اتھے ای آن کھلوتی ‘ اول نصف حصہ اگرچہ لکھنے میں کوئی امرمانع نہیں لیکن اس سے تھوڑی سی سبکی ہوتی ہے ‘ بہرحال گزارش ہے کہ حالات حاضرہ کے حوالے سے موضوعات کی کوئی کمی تونہیں ہے مگر بقول شخصے اس میں دو چار بہت سخت مقام آتے ہیں’ یعنی اگرچہ معروضی سیاسی حالات پر لکھنا اتنا مشکل بھی نہیں تاہم بعض جملے نوک قلم پر اس قسم کے آجاتے ہیں جن سے کچھ شخصیات کی جبینوں پر بل پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے ‘ اس لئے کارزار سیاست سے کبھی کبھی آنکھیں بند کرکے بلکہ اپنا دامن بچا کر بھی گزر جانا بہتر ہوتا ہے اور خاص طور پر جب دیگر موضوعات بھی وافر مقدار میں ہوں ‘ سو آج ایک بار پھر عوام کو درپیش ایک اہم مسئلے پر بات کر لیتے
ہیں ‘ خبر یہ ہے کہ پشاور میں روٹی کی قیمت پر نانبائیوں میں اختلاف ‘ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئے ‘ ایک دھڑے نے بھوک ہڑتالی کیمپ کا اعلان کردیا جبکہ دوسرے گروہ نے ہڑتالی کیمپ سے لاتعلقی ظاہر کردی ‘ نانبائیوں کا کہنا ہے کہ 120 گرام کی روٹی 20 روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے کیونکہ گیس اور آٹے کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں ۔ روٹی انسان کی وہ بنیادی ضرورت ہے جس پر کسی قسم کا کمپرومائز پر انسان تیارنہیں ہوسکتا حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے جو مناظر میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پروائرل ہوتے رہے ہیں ‘ ان میں ایک ویڈیو میں جب سیلاب زدگان کی مدد کے لئے کچھ رضا کار پہنچے اور ایک بچی سے سوال کیا گیا کہ تم لوگوں کا مسئلہ کیا ہے تو اس بچی نے ویران نگاہوں سے جوانتہائی مختصرجواب دیا وہ دنیا کی آکھیں کھول دینے کے لئے کافی تھا ‘ بچی نے صرف اتنا کہا”روٹی” اوراس سادہ سے مختصر ترین جواب میں زندگی کا فلسفہ عالم انسانیت کامنہ چڑاتا دکھائی دیا۔روٹی ازل سے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے جس نے عالمی جنگوں کو جنم دیا ‘ جس نے انقلاب فرانس کو جنم دیا’ اکبرسرحد مرزا محمود سرحدی مرحوم نے آج سے لگ بھگ چھ دہائیوں سے بھی زیادہ پہلے یہ شعر لکھ کر اپنے دور میں روٹی کی صورتحال کس خوبصورتی سے واضح کر دی تھی کہ
کرم اے شہ عرب وعجم ‘ ہے وہ روٹیوں کا پرابلم
کھڑے ہم ہیں ایسے قطار میں کہ کھڑے ہوں جیسے نماز میں
یہ اس دور کی بات ہے جب ہم شاید چھٹی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور اس وقت کی صورتحال ہمارے سامنے تھی ‘ تب بھی ہمارے ہاں آٹے کی قلت کا تقریباً یہی حال تھا ‘ جیسا کہ ان دنوں ہے ۔ اب جہاں تک نانبائیوں کے اس مطالبے کا تعلق ہے کہ انہیں 120 گرام کی روٹی بیس روپے میں فروخت کرنے کی اجازت دی جائے تو اس مطالبے پر ہنسا جائے یا پھر رویا جائے ‘ اس لئے کہ اس وقت شہر کے بیشتر علاقوں میں گزشتہ کئی ماہ سے روٹی پہلے ہی بیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے اور وزن کی بھی کوئی قید نہیںتو وہ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں ‘ عوام کو جوپہلے ہی ان کی چیرہ دستیوں کے کئی سال سے شکار ہیں ‘ یا پھر ان سرکاری اہلکاروں کو جوان پر چیک رکھنے کے ذمہ دار تو ہیں مگر ان کی آنکھوں پربالکل ویسے ہی پٹی بندھی ہوئی ہے جیسے کہ شکروں کی آنکھوں پر باندھی جاتی ہے تاکہ وہ کسی کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔یوں ان سرکاری اہلکاروں سے کسی نیکی ‘ کسی اچھائی کی توقع کیوں کر کی جاسکتی ہے ‘ رہ گئے عوام تو وہ بے چارے تو دعائیں کرتے کرتے خرچ ہوجاتے ہیں وہ تو بس سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ
اخبار میں روزانہ وہی شور ہے ‘ یعنی
اپنے سے یہ حالات سنور کیوںنہیں جاتے
رہ گیا حالات کا خود سے سنورنا تو جب ہر جانب سے بلائوں کا نزول ہوگاتو بقول انوری
ہر بلائے کہ ازسما باشد
گرچہ بردیگراں قضا باشد
برزمیں نہ رسد کہ می پُرسد
خانہ انوری کجا باشد
اسی خبر کے ساتھ کچھ دیگر خبروں کی سرخیاں بھی ملاحظہ کریں ‘ بیس کلو آٹے کی قیمت تین ہزار روپے تک پہنچنے کا خدشہ ‘ایک اور تین کالمی خبر یہ ہے کہ سرکاری آٹا بھی مہنگا ‘ بیس کلو تھیلہ 1295روپے میں ملے گا ‘ گندم کے نرخ بڑھنے سے پختونخوا حکومت نے سبسڈائزڈ آٹے کے نرخوں پر نظرثانی کے بعد نئی قیمتیں مقرر کردیں ‘گویا سبحان اللہ ‘ لو کر لو بات ۔ اس ساری صورتحال میں ایک آواز ایسی بھی سنائی دی ہے جس سے کچھ حوصلہ بڑھتا ہے ‘ جماعت اسلامی کے نائب امیر(صوبائی) اور سیاسی شعبے کے سربراہ عنایت اللہ خان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 151 بین الصوبائی آزادانہ تجارت کی ضمانت دیتا ہے ‘ پنجاب حکومت کی جانب سے خیبر پختونخوا کو آٹے اور گندم کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے کا عمل صریحاً خلاف آئین ہے ۔ جس آرٹیکل کا حوالہ عنایت اللہ خان نے دیا ہے اس نکتے پرماضی میں سال ہا سال سے انہی کالموں میں ہم تصرہ کرتے ہوئے اس غیر آئینی اقدام پر اعتراضات اٹھاتے رہے ہیںاور جب بھی پنجاب نے چھوٹے صوبوں کو گندم ‘ آٹے ‘ میدہ اور سوجی کی ترسیل پرپابندی لگائی ہم نے اسی وقت اپنے کالم میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اس آئینی خلاف ورزی پر اپنی حد تک احتجاج ضرور کیا ‘ اس حوالے سے ہمارے کالم ریکارڈ پر ہیں ‘ اب جبکہ ایک بارپھر ویسی ہی صورتحال ہے اور صوبے میں آٹے کی قلت کا سامنا ہے تو روٹی کی قیمت کا بڑھنا کیسے روکا جاسکتا ہے ؟ ایسے میں کوئی تو ہوجو ہمیں روٹی نہ ملنے کی شکایت پر کیک پیسٹری کھانے کا مشورہ دے۔
ہم گداگر نہیں بس یونہی تمہارے آگے
ہاتھ پھیلایا ہوا ‘ آنکھ جھکائی ہوئی ہے

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ