p613 77

داعش ،افغانستان کا نیا درد سر

افغانستان میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قیدیوں کی رہائی کی صورت میں بالواسطہ مفاہمت امریکہ طالبان معاہدے سے قیام امن کی جو امید وابستہ تھی داعش کے اچانک قوت پکڑنا افغانستان میں ایک ایسی قوت کا سامنے آنا ہے جو افغان حکومت اور طالبان دونوںکیلئے چیلنج ہے جلال آباد جیل پر داعش کا پرقوت حملہ اور جیل توڑ کر قیدیوں کو فرارکرانا ایک بڑا واقعہ ہے جس سے ایک نئی مشکل صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے سوال یہ ہے کہ اگر امریکی فوج افغانستان سے معاہدے کے مطابق واپس چلی گئی تو داعش کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا۔افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جتنی بھی مفاہمت اور صلح ہو یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ دونوں داعش کا مقابلہ کرسکیں گی طالبان قیادت دھیرے دھیرے طالبان کو جنگجویانہ سرگرمیوں سے احتراز کرانے کی پالیسی پر عمل پیرا دکھائی دیتی ہے ایسے میں طالبان کی قوت اور تحرک کا بھی سوال اٹھے گا اور اگر طالبان داعش کے مقابلے کیلئے پوری طرح تیار اور متحرک رہتے ہیں تو پھر افغان حکومت پر ان کا حاوی ہونا اور کسی بھی وقت افغان حکومت کیلئے ان کا خطرہ بننا فطری امر ہوگا امریکی فوجیوں کی واپسی کو مئوخر کرنے کی بھی وکالت نہیں ہوسکتی۔خود امریکہ بھی اپنے فوجوں کی واپسی کی خواہاں ہے اس ساری صورتحال کا واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت قائم کی جائے جو طالبان کے اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔
اور وں کو نصیحت خو د میاں فضیحت
سیاحتی مقامات پر کورونا کی وباء کے ممکنہ پھیلائو کے باعث بندش کے حکومتی فیصلے کی خود اعلیٰ شخصیات کی طرف سے خلاف ورزی دو عملی اور خود ہی فیصلہ کر کے خود ہی اس کی خلاف ورزی کرنے کے مترادف ہے جس کے بعد عوام سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی توقع رکھنا تاجروں کو دبائو میں لانا اور ایس او پیز کی خلاف ورزی پر دکانیں اور مارکیٹیں بند کر نے کا جواز باقی نہیں رہتا۔اب انتظامیہ کی کارروائی معقول نہیں سمجھی جائے گی اور یہ اعتراض اٹھایا جائے گا کہ کیا حکومت کے فیصلے صرف عوام کی پابندی کیلئے ہوتے ہیں خود عمل کرنے کیلئے نہیں؟ ایسا نہیں ہونا چاہیئے تھا حکام اگر عوام کیلئے مثبت نہیں منفی نظیر قائم کریں گے تو یہ کوئی اچھی صورت نہ ہوگی حکمرانوں کو دو عملی کی بجائے قانون کا احترام اور دو نہیں ایک پاکستان کی عملی نظیر پیش کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور ایسے اقدامات سے گریز کی ضرورت ہے جو منفی تاثرات کا باعث بنیں۔
چینی مزید مہنگی، قلت کا بھی خدشہ
خیبرپختونخوا میں چینی کی فی کلو قیمت ایک سو دو روپے ہوگئی ہے دکانداروں کے مطابق چینی کی ترسیل میں کمی اور رسد میں اضافے کی وجہ سے دو ہفتوںکے دوران چینی کی بوری 3300روپے سے بڑھ کر 45سو روپے تک پہنچ گئی ہے اورمحرم کے دوران چینی کا بحران مزید شدید ہونے کا امکان ہے جس کے لئے چینی کا سٹاک دکانداروں نے گوداموں پر جمع کرنا شروع کردیاہے وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق چینی سو روپے کلو فروخت ہورہی ہے سرکاری ادارے کی رپورٹ کو مسترد کرنے کی بھی گنجائش نہیں جو صورت بیان کی گئی ہے اس میں چینی کے ناپید ہونے اور قیمت میں مزید اضافہ کا امکان ہے۔چینی کی مہنگائی کا مسئلہ نیا نہیں بلکہ چینی کے بحران پر تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنایا گیا کمیشن کی رپورٹ بھی عام کر دی گئی ۔ چینی کی قیمت تو100روپے تک پہنچ گئی لیکن حکومت بجائے اس کے کہ اس رپورٹ کے مطابق راست اقدام کر تی طرفہ تماشا یہ ہے کہ اس کمیشن کی رپورٹ کی تحقیقات اب ایف آئی اے کرے گی جس کے لیے11رکنی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ یہ کمیٹی شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کرے گی ۔ وفاقی کابینہ نے23 جون کو ہدایت جاری کی تھی کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ پر کارروائی کی جائے ۔ اب تک یہ ہوا ہے کہ ایک اور کمیٹی بن گئی ۔ایسا لگتا ہے کہ شوگر مافیا کے لوگ اتنے طاقتور ہیں کہ خود حکومت ان کی بچت کے راستے نکالتی ہے ۔ چینی ، انتظامیہ اور یہ پرائس کنٹرول کمیٹیاں کس مرض کی دوا ہیں؟ پرائس تو کنٹرول میں نہیں آتی بس کچھ دکانوں پر چھاپے مار کے جرمانے کر دیے جاتے ہیں جس سے ان گراں فروشوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں