دو آرزو میں کٹ گئے ‘ دو انتظار میں

ہم میں سے کون ہے جس کا کبھی نہ کبھی کسی ڈاکٹر سے واسطہ نہ پڑا ہو ‘ بلکہ کچھ لوگ تو بے چارے مستقل اپنی بیماریوںکی وجہ سے ڈاکٹروں ‘حکیموں اور ہومیو پیتھ ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہیں ‘ اور اسی وجہ سے یہ مریض یا ان کے لواحقین یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کے معالج انہیں جو دوائیاں لکھ کر دیتے ہیں تو طریقہ استعمال کے حوالے سے صبح’ دوپہر ‘ شام کا تعین کرتے ہیں یعنی سیرپ ہو ‘ کیپسول ہوں یا پھر گولیاں زیادہ تر دوائیاں لینے کے لئے عموماً انہی تین اوقات کے حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ فلاں گولیاں ‘ کیپسول یا سیرپ اس طریقے سے استعمال کئے جائیں ‘ بہت کم کوئی دوائی ایسی ہوتی ہے جو دن میں ایک یا دو بار استعمال کرنے کی ہوتی ہے ‘ یعنی عمومی طور پر تین اوقات ہی طے کئے جاتے ہیں ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ سوئی گیس والوں نے بھی کسی ماہر ڈاکٹر ‘ طبیب یا حاذق حکیم سے کسب فیض کرتے ہوئے عوام کو دوائی کی طرح نسخہ دینے کی سوچ اپنا لی ہے اور جوتازہ بیان اس حوالے سے اخبارات میں شائع ہوا ہے اس کے مطابق گھریلو صارفین کو گیس ‘ صبح ‘ دوپہر ‘ شام فراہم کی جائے گی ‘ یعنی صبح ناشتے کے لئے ‘ دوپہر کوہانڈی پکانے اور رات کو عشائیہ کا اہتمام کرنے کے لئے کھانا تیار کرنے کے اوقات میں ڈیڑھ ڈیڑھ دو دوگھنٹے کے لئے گیس ملے گی اور باقی اوقات میں صرف صبر کا دامن تھامے رکھے جانے کی تلقین کی جارہی ہے ‘ صبح دوپہر شام کا نسخہ تجویز کرنے والوں کی بات کا تب اعتبار کیا جائے کہ یہ کارگر ہو گا اور عوام کی ”بیماری” کا علاج ہو گا جب وعدے کے مطابق انہی اوقات میں سہی ‘ بہرحال ملے گا ضرور ‘ مگر عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ گیس ان اوقات میں بھی پوری طرح دستیاب نہیں ہوتی ‘ اب وہ جو گزشتہ برس سوئی گیس حکام نے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ملاقات میںایک تین روزہ لالی پاپ بطور ”نسخہ ہائے وفا” تھما کر وعدہ کیا تھا کہ صرف تین دن کے اندر اندر شہر میں بوسیدہ اور کم قطر کے پائپ تبدیل کرکے گیس پریشر کو نارمل کر دیا جائے گا ‘ شاید یہ تین اوقات کا جدید نسخہ اسی کی کوکھ سے نکل آیا ہے ‘ یعنی بقول شاعر
مرے محبوب نے وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا
کسی سے سن لیا ہوگا یہ دنیا چار دن کی ہے
عوام کے لئے تو وہ تین دن بالآخر تین وقت بن گئے ہیں اور اس سارے معاملے میں سیماب اکبر آبادی کا بھی کسی کو احساس نہیں رہا کہ وہ جو انہوں نے کہا تھا وہ نہ پانچ دن نہ تین دن کا قصہ تھا بلکہ انہوں نے تو انہی چار دنوں کی حقیقت بیان کرتے ہوئے عوام پر اس کا اطلاق ایک اور انداز میں کیا تھا یعنی
عمر دراز مانگ کے لائی تھی چاردن
دو رآروز میں کٹ گئے ‘دو انتظار میں
اس تین”اوقات” کے نسخے سے پہلے اور گزشتہ بر س کی طرح وزیر اعلیٰ کو تین روز والے لالی پاپ تھمانے کے بعدابھی حال ہی میں گورنر خیبر پختونخوا غلام علی صاحب کو بھی سوئی گیس حکام نے ٹرک کی ”لال بتی” کے پیچھے لگا کر وعدہ فردا پرٹالنے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کر لی ہے اور جناب گورنر سوئی گیس حکام کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ہوں گے کہ دیکھیں عوامی حلقوں سے کب”سب اچھا” کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ‘ ادھر عوام کی جو صورتحال ہے وہ ضیاء شاہد کے اس شعر سے واضح ہے کہ
ہم نے سرد چولہے پر
بھوک ہی پکالی ہے
ہم حسب سابق آئین کی اس شق کا حوالہ نہیں دیں گے جو اسی موضوع پر اکثر و بیشتر کالم تحریر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ قدرتی گیس کے حوالے سے ہمارا آئین کیا کہتا ہے ‘ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جب پن بجلی کی تقسیم کے حوالے سے ہمارے صوبے کے لئے مقررہ کوٹے پر کبھی عمل نہیں کیاگیا اور ہم اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرکے بھی قومی گرڈ سے مقررہ مقدار میں نہ بجلی حاصل کر سکتے ہیں نہ اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق ہمیں پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کی جارہی ہے ‘ اسی طرح ہمارے صوبے سے نکلنے والی قدرتی گیس پر بھی ہمیں کوئی اختیار ہے نہ ہی اس سلسلے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلوں پردرست طور پر عمل درآمد کیا جارہا ہے اور صوبے کو ترجیحی بنیادوں پر گیس فراہم کئے جانے کے بعد دوسرے صوبوں کو گیس دی جا سکتی ہے ‘ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس طرح پن بجلی کو قومی گرڈ کے توسط سے ہی صوبوں کوواپس کیا جاتا ہے وہ بھی ہمارے کوٹے کے مطابق نہیں اسی طرح ہماری گیس کا رخ بھی پہلے مبینہ طور پر میانوالی کے علاقے میں کسی کنٹرول سسٹم کوحوالے کیا جاتا ہے اور وہاں سے پھر یہ ہمارے صوبے کو مہیا کی جاتی ہے ‘ اور اس صورتحال پر بار ہا ‘ بلکہ باربار لکھتے ہوئے بھی ہم تھک چکے ہیں ‘ مگر بقول مرزا غالب
کوئی صورت نظر نہیں آتی
کوئی امید بر نہیں آتی
اس لئے دل پشوری کرنے کے لئے کیوں نہ وزیر اعظم شہباز شریف کے اس بیان سے لطف اندوز ہوں کہ پون بجلی ‘ شمسی توانائی اور پن بجلی پر توجہ دی جاتی تو آج ہمارا ایندھن کابل 27ارب ڈالر نہ ہوتا ‘ وزیر اعظم کے اس بیان کے اندر ایک اور نسخہ کیمیاء بھی پوشیدہ ہے یعنی اگر ہم توانائی کے دیگر ذرائع کو بروئے کار لاتے تو انڈسٹری کو گیس پر منتقل کرکے عوام کوگیس سے محروم رکھنے کی نوبت نہ آتی کیونکہ بجلی پیدا کرنے کے لئے بعض پلانٹس کو گیس پر چلا کر کام چلایا جاتا ہے ‘ اسی طرح فرنس آئل سے بھی بجلی پیدا کی جاتی ہے ‘ پون بجلی اور شمسی توانائی سے دنیا کے بیشتر ممالک میں استفادہ کیا جاتا ہے ‘ اس حوالے سے حکومت نے شمسی توانائی میں استعمال ہونے والے پینلز کو عام آدمی کی دسترس میں کرنے کے لئے کچھ رعایتیں بھی دی ہیں مگران میں بھی اب کچھ رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں ‘ اور سستے پینلز تیار کرنے کے حوالے سے ”سیاسی کاریگری” کے چرچے عام ہیں یعنی صرف اورصرف سیاسی مخالفتوں کی وجہ سے الزامات کا طومار باندھا جارہا ہے یہ سوچے بغیر کہ اس قسم کے الزامات سے ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے بند ہونے کے خطرات بڑھتے ہیں ‘ اور نتیجہ عوام کو سہولیات کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں ۔ یعنی بقول غلام بھیک نیرنگ
جائے ماندن ہمیں حاصل ہے نہ پائے رفتن
کچھ مصیبت سی مصیبت ہے خدا خیر کرے

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند