ذکر کرتے ہیں ترا مجھ سے بہ عنوان جفا

جس طرح سکے کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر مسئلے کے بھی دو پہلو(کبھی زیادہ) ہوتے ہیں ‘ گزشتہ روز ایک نہایت ہی چونکا دینے والی خبر نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا جوبھارتی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے اور ان کے قتل عام کے ذریعے نسل کشی سے متعلق تھی ‘ دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کے ہاتھوں جس طرح یہودیوں کی نسل کشی کی داستانیں عام ہوئیں، خود راقم جب عرصہ پہلے جرمنی ایک ٹریننگ کے سلسلے میں کولون کے شہر میں مقیم تھا تو ڈوئچے ویلے ریڈیو ٹریننگ کی سیر کرائی تھی وہاں ان مقامات پر بھی لے گئے تھے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ یہودیوں کوان مقامات پر نہ صرف موت کے گھاٹ اتاراگیا تھا بلکہ ( اللہ معاف کرے) ان کی چربی سے صابن بنایا جاتا تھا ‘ اس لئے اب سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب جرمن خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہٹلر کے حکم پر یہودیوں کی نسل کشی کی گئی تھی تو جولوگ اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں ان کا دعویٰ کہاں تک درست ہے ؟ خیر بات ہو رہی تھی بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے منصوبے کی ‘ جس کے بارے میں جینوسائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردارکیا ہے ‘ الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کانگریس کو ایک بریفنگ کے دوران کہا ہے کہ بھارتی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کی ابتدائی علامات اور عمل موجود ہیں ‘ انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں بڑے پیمانے پر نسل کشی ہو سکتی ہے ‘ انہوں نے کہا کہ نسل کشی کوئی واقعہ نہیں ہے ایک عمل ہے اور 2017ء کے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی پالیسیوںاور روہنگیا مسلمانوں کے خلاف میانمار حکومت کی امتیازی پالیسیوں میں مماثلت ہے’ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا
ذکر کرتے ہیں تیرا مجھ سے بہ عنوان جفا
چارہ گر پھول پرولائے ہیں تلواروں میں
کالم کی ابتدائی سطور میں سکے کے دو رخ اور ہر مسئلے کے دو پہلوئوں کا ذکر کرتے ہوئے ہم نے جس حقیقت کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے اس پر اگر غور کیا جائے تو مسئلے کا ایک پہلو تو وہی ہے جس کی طرف گریگوری اسٹینٹن نے توجہ دلائی ہے یعنی بھارتی انتہا پسندوں اور آر ایس ایس کے سفاک غنڈوں کی جانب سے گزشتہ سات دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے مسلمانوں کی نسل کشی ‘حالانکہ ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں صرف مسلمانوں ہی کی زندگی عذاب میں مبتلا نہیں ہے بلکہ انہیں جب بھی موقع ہاتھ آیا بھارت کی دیگر اقلیتوں کے خون کی ہولی کھیلنے میں بھی انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اندرا گاندھی کے دور میں گولڈن ٹمپل(دربار صاحب) پردھاوا ‘ سکھوں کی نسل کشی اور سکھوں کے ردعمل کے نتیجے میں خود اندراگاندھی کے قتل کے بعد پورے ہندوستان میں سکھ برادری کے قتل عام کے نظارے کوئی اتنی زیادہ پرانی بات بھی نہیںہے ‘ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں سکھ نسل کے لوگ اپنے لئے آزاد وطن خالصتان کا نعرہ لگاتے ہوئے برطانیہ میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور وہاں بھارت کی شدید مخالفت کے باوجود آزاد وطن خالصتان کے لئے ریفرنڈم کا ڈول ڈال چکے ہیں ‘ تاہم جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے تو نہ صرف مسلمانوں کی نسل کشی کے لئے آر ایس ایس کے غنڈے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ‘ بلکہ مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین کوجس طرح تبدیل کرکے وادی میں غیر قانونی طور پر ہندوئوں کولا بسانے کی پالیسی پرعمل یا ‘ مقبوضہ وادی کو عملی طور پر یرغمال بنا کر وہاں ظلم و بربریت کا سرکاری سطح پر ارتکاب کیا ، یوں مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے اقدام اٹھا کر ایسے قوانین بھی منظور کرائے جن کے تحت مسلمانوں کی شہریت ختم کرکے
انہیں ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے’ اس سے پہلے ایسے ہی اقدامات میانمار کی حکومت نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اٹھا کرانہیں بنگلہ دیش میں دھکیلا تھا جبکہ نسل کشی کی واردات روانڈا میں بھی سامنے آئی تھی’ اس ضمن میں مسئلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت میں پانچ سابق فوجی سربراہوں سمیت سو سے زائد اعلیٰ فوجی و سول افسروں اور ممتاز شخصیات کا بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کے نام ایک خط بھی منظر عام پر آچکا ہے جس میں شدت پسند ہندو تنظیموں اورلیڈروں کی جانب سے جلسوں ‘ جلوسوں میں علی الاعلان مسلمانوں کے قتل عام کے کھلے عزائم کے اظہار پر انتہائی تشویش ظاہر کرتے ہوئے اس کے فوری سدباب پر زور دیاگیا ہے ،اب جبکہ بھارت کے اندر سے مسلمانوں کے خلاف نفرت اور حقارت پر مبنی سوچ کی مخالفت کی جا رہی ہے ‘ اور دوسری جانب جینوسائیڈ واچ جیسی تنظیم بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کر رہی ہے اور تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن عالمی برادری کوجھنجھوڑ رہے ہیں اور بھارتی مسلمانوں کی ممکنہ نسل کشی کے خطرات کی نشاندہی کر رہے ہیں ، مسلم امہ پربھی فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے مودی سرکار کو مسلم کش اقدامات سے روکے ‘ بدقسمتی سے اس وقت دنیا چونکہ اقتصادی معاملات کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اس لئے مالدار مسلمان ممالک مسلم امہ کو درپیش مشکلات پر سوچنے سے زیادہ اپنے اقتصادی اور تجارتی مفادات کے بارے میں سوچتے ہوئے بھارت کی وسیع مارکیٹ کو مدنظر رکھنے کی علت میں مبتلا ہے ‘ تاہم مسئلے کے جس دوسرے پہلو کا ہم نے تذکرہ کیا تھا کہیں وہ یہ تو نہیں کہ بظاہر مسلمانوں کے خیر خواہ بن کر امریکی تنظیم جینو سائیڈ واچ کی جانب سے درپردہ”مسلمانوں کی نسل کشی” پر بھارتی انتہا پسندوں کو اکسایا تو نہیں جارہا ہے؟ کیونکہ اہل مغرب کونسا مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں ۔ بقول مصحفی
میں عجب یہ رسم دیکھی ‘ مجھے روز عید قرباں
وہی ذبح بھی کرے ہے ‘ وہی لے ثواب الٹا

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ