رخصتی کانقارہ

تمام تر شکوک و شبہات کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے معاملات اگلے ماہ نگراں حکومت کے حوالے کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگست 2023میں ہم معاملات نگراں حکومت کے سپرد کر دیں گے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنی کارکردگی کا بھی تذکرہ کیا ان کا کہنا تھا کہ ملکی مفادات کی راہ میں بچھائی گئی بارودی سرنگیں صاف کیں15ماہ میں چارسال کی بربادیوں کا ملبہ صاف کیا، معیشت، خارجہ تعلقات سمیت دیگر شعبوں میں لگی آگ بجھائی، اس عرصے میں ہم نے سیاست نہیں کی بلکہ ریاست کی حفاظت کی۔ شہباز شریف نے کہا کہ ووٹ بینک کی فکر نہیں کی سٹیٹ بینک میں اضافے کی فکر کی، ہم ملکی معیشت کی بحالی میں مصروف تھے اور کچھ لوگ ملک کو ناکام بنانے میں مصروف تھے، پاکستان کے ڈیفالٹ کا خطرہ اور اُن کی ناپاک سازش مٹی میں مل چکی ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آ گیا ہے ہمیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے، ملکی معیشت کی بحالی کیلئے جامع پروگرام بنا لیا گیا ہے، ملکی معیشت کی بحالی کے پروگرام کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ وطن دشمن سازشوں کے باوجود ہم نے ہمت نہیں ہاری، اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ کشکول توڑ دیں، مقروض ہونا چھوڑ دیں، پوری قوم یکسو ہے کہ قرض کی زندگی نا منظور ہے۔وزیر اعظم نے ایک واضح اعلان تو ضرور کیا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اگلے عام انتخابات کے انعقاد کے لئے ٹھوس وقت متعین کرنے سے گریز کیااور اس معاملے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان پر چھوڑ دیاگیا ویسے بھی تکنیکی طور پر، ای سی پی ہی انتخابی شیڈول کا اعلان کرنے کے لیے بااختیار متعلقہ اتھارٹی ہے اب یہ ای سی پی پر منحصر ہے کہ انتخابات کے لئے تیاری کا ماحول بنائے۔وزیر اعظم کے خطاب سے ہی اس امر کا اندازہ ہونا چاہئے کہ اب حکومت اور اس میں شامل سیاسی جماعتیں انتخابات کے حوالے سے یکسو ہیں چودہ اگست یا اس سے قبل ملک میں نگران حکومت کا قیام عمل میں آئے گا اس بات کا تو حتمی اعلان سے ہی علم ہو سکے گا کہ انتخابات ساٹھ دنوں میں ہونے ہیں یا ایک دو رزقبل اسمبلیاں توڑ کر نوے دن کے اندرانتخابات کا فیصلہ کیا جاتا ہے جوحکومت کا قانونی حق ہے اندازہ ہے اور جیسا کہ حکومتی وزراء بیانات بھی دے رہے ہیں کہ اسمبلیوں کی تحلیل مقررہ مدت سے دو چار دن قبل ہو گی اور انتخابات کا انعقاد نوے دن میں ہوگا۔قانون و دستور کے تقاضے یہی دو صورتیں ہیں لیکن جس طرح خیبر پختونخوا اور پنجاب میں نگران صوبائی حکومتوں کو طول دیا گیا اس سے خدشات کاجنم لینا بلاوجہ تو نہ ہوگا لیکن بہرحال ایک مرتبہ مرکزی حکومت اور قومی اسمبلی کی تحلیل مکمل ہو تو اس کے بعد الیکشن کمیشن شاید مزید رسک نہ لے جہاں تک حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے عمل کی تکمیل کی بات ہے ایسا نہیں لگتا کہ نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرکے انتخابات کرانے کے لئے وقت کافی ہو گا اگر ایسا فیصلہ ہوتا ہے تو پھر عام انتخابات کے انعقاد کا دورانیہ آگے بڑھ سکتا ہے جس سے قطع نظر وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اگست میں قومی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر حکومت چھوڑ دیں گے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی حد تک واضح کرتا ہے کہ انتخابات کے حوالے سے پی ڈی ایم حکومت کے کیا ارادے ہیں، لیکن انتخابات کے وقت پر سوالیہ نشان اب بھی موجود ہے۔محولہ صورتحال سے قطع نظر اس کے بعد بال الیکشن کمیشن کی کورٹ میں ہوگی۔رپورٹس میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ حالیہ دبئی ملاقات میں نگراں سیٹ اپ کے ڈھانچے کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا ہے لیکن اس کے باوجود کم ازکم یہ تو واضح ہو چکا کہ پی ڈی ایم حکومت اپنی مدت سے زیادہ نہیں رہے گی اب تمام نظریں ای سی پی پر لگی ہوئی ہیں، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ آئندہ انتخابات کے وقت کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتا ہے۔ ایسی افواہیں پھیل رہی ہیں کہ آئندہ نگراں سیٹ اپ دو یا تین ماہ سے زیادہ عرصے تک قائم رہ سکتا ہے، جیسا کہ کے پی اور پنجاب کی عبوری حکومتوں کی طرح، جو اپنے اپنے عہدے کی میعاد ختم ہونے کے بعد بھی طویل عرصے تک کام کرتی رہی ہیں۔ ایسا منظر نامہ مثالی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ سیاسی بحران کو مزید طول دے گاجس کے باعث عوام گزشتہ ایک سال سے مخمصے کا شکار ہیں اور عام انتخابات کے انعقاد کے منتظر ہیں تاکہ ملکی قیادت اور حکومت کی کوئی سمت متعین ہو۔ امید ہے کہ عوامی انتظار کو مزید طول نہیں دیا جائے گاملک کو ایک بااختیار اور نمائندہ حکومت کی اشد ضرورت ہے جو اسے آگے لے جانے کے لیے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بعد تشکیل دی جائے۔ امید ہے کہ ملک کو کسی اور مہم جوئی کا شکارنہیں بنایا جائے گا اس وقت ملک کو ایک بااختیار حکومت کی اشد ضرورت ہے جو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے بعد قائم ہو تاکہ اسے آگے لے جایا جا سکے۔ اس کو ناکام بنانے کے کسی بھی اقدام کو اس کے آئینی حکم کی ایک اور صریح خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی