سائبر خطرات کا چیلنج

وفاقی حکومت نے وزیر اعظم ہائوس سے آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی ہے۔ یہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اس بات کی تحقیق کرے گی کہ یہ کیسے آئی ٹی ڈیٹاہیک کیا گیا یا کسی نے چوری کر کے فروخت کیااور یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوااس جے آئی ٹیم کو اختیار ہو گا کہ وہ وزیراعظم ہائوس کے عملے کو شامل تفتیش کرے۔ وزارت داخلہ کے اہلکار کے مطابق وزیر اعظم ہائوس میں ڈیوائسز لگائی گئیں یا موبائل سے ریکارڈنگ کی گئی اس پر بھی تحقیقات ہوں گی۔اہلکار کے مطابق تحقیقاتی ٹیم جائزہ لے گی کہ واقعہ کے وقت کون کون افسر وزیر اعظم ہائوس میں موجود تھا۔واضح رہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی ہر طرح کی سکیورٹی سول حساس ادارے کے پاس ہے۔اہلکار کے مطابق یہ تحقیقاتی ٹیم وزیر اعظم ہائوس پر مامور سول حساس ادارے کے ڈائریکٹوریٹ کو بھی شامل تفتیش لا سکے گی۔ اہلکار کہ مطابق وزیر اعظم ہائوس اور سیکریٹریٹ میں مامور گذشتہ چھ ماہ سے اسپیشل برانچ کے اہلکاروں سے بھی تحقیقات ہوں گی دوسری جانب وزیر اعظم ہائوس اور پی ایم آفس پر مامور سکیورٹی اہلکاروں کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے پاکستان میں وزیراعظم ہائوس کی 100 گھنٹے سے زائد کی آڈیو کی ڈارک ویب پر موجودگی اور اس کی مبینہ نیلامی کے بعد نمونے کے طور پر آنے والی تین لیک آڈیوز کے بعد اسے ملک کے سب سے بڑے دفتر پر سائبر حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔یقینا یہ سنگین امر اور کئی سوالات کا باعث امر ہے جس کی جامع تحقیقات اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس کامستقل تدارک ضروری ہے یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے جاسوسی ہوئی ہے اور آڈیو ریکارڈ کی گئی ہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ماضی میں کئی ایک واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سے کچھ واقعات میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں تاہم جاسوسی کے واقعات کے بعد آڈیو یا ویڈیوز لیک نہیں کی گئیں۔ ماضی قریب میں سابق وزیراعظم عمران خان کے موبائل فون کو اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے ہیک کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔اس واقعہ کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان گرمیوں میں وزیر اعظم آفس میں اپنے دفتر سے ملحقہ کمیٹی رومز اور سردیوں میں وزیراعظم ہائوس کے لان میں ملاقاتیں اور اجلاس کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم اور ڈی جی آئی ایس آئی اور غیر ملکی وفود سے بھی باہر بیٹھ کر ملاقاتیں کرتے تھے۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس یہاں تک کہ رہائشی یونٹ کی جبکہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور حکومت میں وزیراعظم ہائوس کی جاسوسی کی بہت سی کوششیں ہوئیں۔ اس حوالے سے اس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان میں غیر ملکی سفارت خانے ریڈ زون میں واقع ہر اہم دفتر میں ہونے والے اجلاسوں کو بگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ہم اسے
روکنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ انٹیلی جنس بیورو حکام کے مطابق یوسف رضا گیلانی کے دور میں ان کے گھر دفتر کے کونے کونے کو متعدد مرتبہ ڈی بگ کیا گیا تھا۔ ان کے دور حکومت میں دو مرتبہ وفاقی کابینہ کا اجلاس کچھ گھنٹوں کے لئے ملتوی کیا گیا کیونکہ آئی بی نے کچھ ایسی شعاعوں کا پتہ لگایا تھا جو کابینہ روم سے آواز کیچ کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ بعد ازاں انہیں ڈی کوڈ کرکے متعلقہ ملک کو آگاہ کر دیا گیا تھا جس کے سفارت خانے سے یہ کوشش کی جا رہی تھی۔ اس سے قبل سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے دور میں ایسی کئی کوششیں ہوئیں ۔ان واضح عوامل کے حوالے سے کیا اقدامات ہوئے اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ اس کا توڑ نکالنے کی مساعی بہرحال ہوئی ہوں گی ملک و قوم کی سلامتی و تحفظ کے حوالے حساس معاملات سے صرف نظر ممکن نہیں بہرحال حساس مقامات اور عمارات میں سائبر سکیورٹی کا اپنا نظام ہے اور ہر ایک کے لئے الگ الگ ٹیمیں موجود ہوتی ہیں جو ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق کام کرتی ہیں۔ہر اہم ملاقات سے پہلے دفتر اور کمیٹی روم جبکہ ہر سفر سے پہلے گاڑی کی ڈی بگنگ کی جاتی ہے۔اسی طرح وزیراعظم ہائوس یا وزیراعظم آفس میں آنے والے ہر فرد سے موبائل فون باہر ہی جمع کر لئے جاتے ہیں اور عملے کے جن افراد کو سیکرٹریٹ میں موبائل فون لے کر جانے کی اجازت ہوتی ہے ان میں سے اگر کسی کو وزیراعظم کے دفتر میں کسی اجلاس کے لئے جانا ہو تو انہیں اپنا فون باہر چھوڑنا پڑتا ہے۔ جامہ تلاشی اور سکیورٹی دروازوں کا بھی تہہ در تہہ نظام موجود ہے۔اس کے باوجود100گھنٹوں پر مشتمل آڈیو کیسے ریکارڈ ہوئی یہ صرف وہی کر سکتا ہے جس کے پاس آئی بی کی سیکیورٹی ٹیم کو دھوکا دینے کی صلاحیت موجود ہو۔سامنے آنے والی تفصیلات ہمارے سائبر سکیورٹی کے نظام کے ساتھ ساتھ ہماری سلامتی او ررازداری کے انتظامات پربڑا سوالیہ نشان ہیں بیس اگست کو ہی کسی گمنام یوزر نے اس کا انکشاف کیا تھا جو کہانی اب طشت ازبام ہوئی ہے وہ ہیکرز کی دنیا میں ایک ماہ قبل سے زیر بحث تھی مگراس کے باوجوداس حوالے سے کوئی پیشرفت میں کیوں ناکامی ہوئی اور اس عمل کو روکا کیوں نہ جا سکا یہ ہمارے اداروں کی کارکردگی پر سوالات کا باعث امر ہے ۔اب کہیں جا کر اس کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے یہی عمل اگرمہینہ قبل ہوتا تو زیادہ موزوں ہوتا۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں پرسائبر حملوں میں اضافہ تشویش کی بات ہے ان حملوں میں اضافہ سے اس امر کا اظہار ہوتا ہے کہ سائبر سکیورٹی کے انتظامات کو مزید بہتر اور مربوط بنانے اور ٹیم میں ماہرین کی شمولیت کی ضرورت ہے یہ سلسلہ تین وزرائے اعظم کے ادوار سے جاری ہے مگر اس کے باوجود اس حوالے سے اقدامات نہ ہونا یا پھر احتیاطی تدابیر اور متبادل اقدامات کرکے اس کا توڑ نہ نکالنا لمحہ فکریہ ہے گزشتہ برس اس حوالے سے بعض ا قدامات کاعندیہ بہرحال دیا گیا تھا لیکن بدستور یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کوئی نمایاں تبدیلی سامنے نہیں آئی وزیر اعظم ہائوس کی مبینہ ریکارڈنگ اور ٹیلی فونک لیکس سائبر دراندازی کا نتیجہ ہیں یا کسی دیگر ہتھکنڈے اور مقاصد کے لئے ملک کے اہم اجلاسوں اور شخصیات کی گفتگو کو ٹیپ کیا گیا اس کی تحقیقات کرکے آئندہ کے لئے اس کے طرح واقعات کاتدارک یقینی بنایا جائے سائبر سکیورٹی کی قومی پالیسی کا اطلاق سنجیدگی سے ہونا چاہئے ان حالات کے تناظر میں یہ بات واضح طور پر سامنے آجاتی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ساتھ سائبر سکیورٹی کے بڑھتے خطرات شدید نوعیت کے ہو سکتے ہیںحکومتی ایوانوں اور اداروں سے لیکر عام شہری تک سبھی کو اس ضمن میںمحتاط رہنے اور تحفظ کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ