سرمائی اولمپکس پر اومیکرون

سرمائی اولمپکس پر اومیکرون کے سائے

تین ہفتوں کے بعد چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ ٹکٹوں کی فروخت ابھی باقی ہے۔ پروازوں کے شیڈولز میں بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے تشویش اور الجھن بڑھتی ہی جارہی ہے۔ کورونا کی وباء نے ایک بار پھر زور پکڑا ہے۔ کورونا کے نئے ویریئنٹ اومیکرون نے بھی صورتِ حال کو انتہائی پریشان کن بنانا شروع کردیا ہے۔ بیجنگ کے سرمائی اولمپکس سے پہلے غیر یقینیت پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ دن پہلے تک معاملہ یہ تھا کہ بیجنگ کے آس پاس کے پانچ شہروں میں کم و بیش دو کروڑ افراد اپنے گھروں تک محدود تھے۔ بیجنگ سے صرف 70 کلو میٹر دور واقع بند شہر تیانجن میں چند ہفتوں پہلے صورتِ حال اتنی بگڑ گئی تھی کہ بیجنگ کو تحفظ فراہم کرنے والی خلیج کہا جارہا تھا۔ تیانجن میں اومیکرون کی وباء کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جارہے ہیں۔ وزارتِ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ تیانجن اور اْس سے ملحق قصبوں، دیہی علاقوں میں کورونا وائرس کا پھیلائو خاصی مدت سے جاری ہے۔ حکام نے تیانجن کے ایک کروڑ 40 لاکھ باشندوں کی ایک بار پھر اسکریننگ کا حکم دیا ہے۔ چین نے اعلان کیا تھا کہ سرمائی اولمپکس زیرو کورونا ماحول میں ہوں گے۔ یہ بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لیے چینی حکومت کو وسائل غیر معمولی حد تک بروئے کار لانا پڑے ہیں۔
چین نے کورونا کی وباء پر قابو پانے کے حوالے سے بہت کچھ کیا ہے۔ سرمائی اولمپکس کے حوالے سے بھی چینی قیادت بہت محتاط رہی ہے۔ اس کی کوشش رہی ہے کہ 4 فروری سے شروع ہونے والے سرمائی اولمپکس کے دوران صحتِ عامہ کے حوالے کوئی بھی نا خوش گوار واقعہ رونما نہ ہو۔ اسکریننگ پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ کورونا کے کیسز سامنے آنے کی صورت میں قرنطینہ کے بھی خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں۔ جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی اْنہیں بیجنگ آمد پر پہلے اکیس دن قرنطینہ میں گزارنا ہوں گے۔ جو ویکسین لگوا چکے ہیں وہ بیجنگ آمد اور وہاں سے روانہ ہونے تک الگ تھلگ حلقوں میں رہیں گے۔ آنے سے قبل انہیں دو منفی ٹیسٹ رپورٹس پیش کرنا ہوں گی۔ بیجنگ آمد کے بعد بھی انہیں یومیہ بنیاد پر ٹیسٹ کرانا ہوں گے اور موبائل فون ایپ کے ذریعے صحتِ عامہ کے اہلکاروں کو باقاعدگی سے رپورٹس ارسال کرنا ہوں گی۔
چینی صدر شی جن پنگ نے کہا ہے کہ اومیکرون کی بڑھتی ہوئی لہر اور کورونا کے پْرانے ویریئنٹس کے بھی مزید پھیلاوے کے باوجود سرمائی اولمپکس کو ہر اعتبار سے محفوظ رکھنے پر توجہ دی جائے گی اور اس حوالے حکام کو ہدایت کی گئی ہے کہ کوئی بھی کسر اٹھا نہ رکھیں۔ حکام کہتے ہیں کہ اومیکرون کی لہر کے باوجود ابھی تک سرمائی اولمپکس سے متعلق منصوبہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بیجنگ میں لاک ڈائون کا بھی فی الحال کوئی امکان نہیں اور کھیلوں کے شیڈول میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ اولمپکس انتظامی کمیٹی کے ترجمان زائو ویڈونگ کا کہنا ہے کہ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے، سرمائی اولمپکس کے کسی ایک ایونٹ کو بھی کورونا کی وباء سے متاثر نہیں ہونے دیا جائے گا۔
کئی اہم سوال اب تک جواب طلب ہیں۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ شائقین کو کس طور آنے دیا جائے گا۔ انتظامی حکام کا کہنا تھا کہ صرف مین لینڈ چائنا سے تعلق رکھنے والے افراد ہی کو سرمائی اولمپکس دیکھنے کی اجازت دی جائے گی۔ وہ بھی صرف تالیاں بجاسکیں گے، خوشامدانہ انداز اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ گزشتہ برس ٹوکیو اولمپکس میں صرف اولمپکس ولیج ہی میں کورونا کے 400 سے زائد کیس سامنے آئے تھے۔ کورونا کی وباء کی بھرپور روک تھام اور کیسز کی تعداد انتہائی کم رکھنے کے حوالے سے چینی حکومت نے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کو ترجیح دی ہے۔ اسپورٹس ولیج میں اگر کوئی ایسا شخص سامنے آیا جو کورونا وائرس سے آلودہ پایا گیا تو اْسے انتہائی سخت ماحول میں قرنطینہ کیا جائے گا۔ دو بار اس کا کورونا ٹیسٹ کیا جائے گا اور یہ سب کچھ انتہائی غیر لچک دار ماحول والے سرکاری اسپتال میں ہوگا۔ اسپورٹس ولیج میں وہی رہ سکے گا جس میں کورونا وائرس کا نام و نشان تک نہ ہوگا۔
حکام کو زیادہ تشویش اس بات سے ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کورونا وائرس سے آلودہ کسی شخص سے رابطہ کرنے پر مقامی طور پر آباد کسی غیر ملکی کو یہ وائرس نہ لگ جائے۔ مقامی لوگوں کو اسپورٹس ولیج کی گاڑیوں تک سے دور رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اگر اسپورٹس ولیج کی کسی گاڑی کو حادثہ پیش آجائے تو اِس حوالے سے الگ ایمبولینس یونٹ قائم کیا گیا ہے۔سرمائی اولمپکس چینی قیادت کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ کورونا کی وباء کا دائرہ محدود رکھنے پر جتنی توجہ چین میں دی گئی ہے شاید کسی اور ملک میں دی گئی ہو۔ کھیلوں کے اس ایونٹ کے حوالے سے چینی قیادت اپنی اہلیت ثابت کرنا چاہتی ہے۔ زیان اور چند دوسرے شہروں میں لوگوں نے کورونا کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے انتہائی غیر لچک دار اقدامات پر شدید ناراضی بھی ظاہر کی ہے۔ گزشتہ ماہ اس شہر میں خوراک کی شدید قلت بھی پیدا ہوگئی تھی۔ مختلف بیماریوں کی روک تھام کے لیے مغرب میں جو کچھ کیا جاتا ہے اْس کے حوالے سے اپنی اہلیت ثابت کرنے کے لیے چینی قیادت سخت اقدامات کا سہارا لے رہی ہے۔ چینی حکومت نے باہر سے آنے والوں کے کورونا ٹیسٹ پر بھی خاصی توجہ دی ہے۔ کورونا کی وباء کے پھیلائو کے خطرے کے پیش نظر مغربی ممالک سے اور مغربی ممالک کے لیے متعدد پروازیں منسوخ بھی کی گئی ہیں۔ باہر سے آنے والوں کے لیے آج بھی چین میں غیر معمولی نوعیت کی پابندیاں ہیں۔ مثلاً امریکا سے آنے والے غیر مقیم مسافروں پر لازم ہے کہ جہاں بھی قیام کریں وہاں کورونا ٹیسٹ کراکے کم از کم دو منفی رپورٹس پیش کریں۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے