arif bahar 38

سفارت خانوں کی” بھل صفائی”

سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے میں مزدوروں سے رشوت لینے کے سیکنڈل کے منظر عام پر آنے کے بعد متعلقہ افراد کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے روشن ڈیجیٹل اکاونٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کے دوران اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارت خانے نے مزدوروں کی جو خدمت کرنی تھی نہیں کی ۔سعودی عرب میں تعینات سفیر کے خلاف تحقیقات کی جا رہی ہے۔انکوائری کے بعد ذمہ داروں کے خلاف بھرپورکارروائی کی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کام کرنے والے پاکستانی خاص لوگ ہیں ہم انہیں نوکریاں نہیں دے سکتے اس لئے یہ گھر والوں سے دور محنت مزدوری کرکے ملکی معیشت کی بہتری میںاپنا حصہ ڈالتے ہیں مگر سفارت خانے ان سے اچھا سلوک نہیں کرتے اور رشوت وصول کی جاتی ہے ۔دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کو واپس بلایا جا چکا ہے اور اب چھ مزید سفارتی اہلکاروں کو بھی واپس بلایا جا رہا ہے۔یہ چھ اہلکار کمونٹی ویلفیئر اورقونصلر ونگ میں کام کرتے تھے۔سعودی عرب کے پاکستانی سفارت خانے میں رشوت ستانی کا واقعہ پاکستان کے سفارت خانوں کی دنیا کی دیگ کا ایک دانہ ہے ۔اس دیگ میں ابھی کہاں کہاں کیا کچھ باقی ہے اس کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے ۔جس طرح پاکستان کے اندر سسٹم دیوالیہ پن کا شکار ہے ۔ادارے غیر فعال اور دفاتر روزگار بن کر رہ گئے ہیں اور قومی خدمت اور عوامی بہبود اور اجتماعی بھلائی اور فرض کی بجاآوری کا تصور عنقا ہو گیا ہے ۔طاقت اختیار ،وسائل عہدہ ومنصب صرف ذاتی تجوریاں بھرنے اور تصرفات اور تعیشات کے لئے استعمال کرنے کا رواج غالب ہے ۔اس کے اثرات بیرون ملک کام کرنے والوں سفارت خانوں تک بھی پہنچے ہیں ۔سفارت خانے بھی پاکستان سے ہی کنٹرول ہوتے ہیں اور پاکستان سے ہی اسی مائنڈ سیٹ کے لوگ ان سفارت خانوں میں براجمان ہوتے ہیں اس لئے پاکستان کے پورے نظام کی جھلک ان سفارت خانوں میں دکھائی دیتی ہے ۔کام چوری ،تساہل ،تغافل ،رشوت سفارش ،سرخ فیتے کی وبا،اپنے شہریوں کو سفارت خانوں کے چکر لگوانا ،قطاروں میں کھڑا کرکے ذلیل کرناان سفارت خانوں کا معمول رہا ہے ۔دوسرے ملکوں کے سفارت خانے اپنے شہریوں کی ماں بن کر تحفظ کرتے ہیں مگر ہمارے سفارت خانے اپنے شہریوں کو ذلیل کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے تارکین وطن اور محنت کش اکثر اپنے سفارت کاروں کے رویوں کا رونا روتے نظر آتے ہیں ۔ملک کے دوسرے اداروں کے ملازمین کی طرح سفارت کاروں نے بھی خود کو خدا کا فرستادہ سمجھ کر تنخواہ لینے اور رشوت سمیٹنے کو ہی اپنا فرض جان لیا ہے ۔ان سفارت خانوں پر نظر کون رکھے ۔نظر رکھنا وزارت خارجہ کا کام ہے اور وزارت خارجہ پاکستان میں ہے اور یہاں چہار سو کام نہ کرنے اور تساہل وتغافل کا مائنڈ سیٹ غالب ہے ۔اس لئے جن کا کام مسائل زدہ عوام کی شنوائی ہوتا ہے وہ خود سفارتی عملے کی ان حرکتوں کی سرپرستی کرتے ہیں ۔یہ تو اب حالات اور ذہنیت میں کچھ تبدیلی آرہی ہے کہ جس کا اظہار سعودی سفارت خانے میں رواں آپریشن سے ہوا ہے وگرنہ اس سے پہلے تو بڑے بڑے واقعات پر وقت کی گرد جم جاتی تھی ۔بیرون ملک بسنے والے یا محنت کشوں کی آوازیں صدابصحرا ثابت ہوتی رہی ہیں۔اکثر سفیر بیرون ملک تعینات ہو کر طبقہ اشرافیہ کا حصہ بن جاتے ہیں اور اپنی کمونٹی سے ان کا رابطہ سال میں یوم پاکستان کی کسی تقریب تک محدود ہوتا ہے ۔پاکستان کی سفارتی حالت زار کی جہاں عالمی سیاسی وجوہات بھی ہیں وہیں اس کی ایک بڑی وجہ سفارت خانوں کا ”نو ورک نومسٹیک ” کا والا رویہ ہے۔مسٹیک تو کام کئے بغیر بھی وہ کرجاتے ہیں مگر کام سے گریز میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔بہت سے سفارت خانوں میں کمونٹی کے ساتھ روابط اور اچھے رویوں کا اظہار بھی ہوتا ہے مگر یہ ایک مستقل اصول اور رویہ نہیں یہ ایک سفیر یا سفارت کار کی ذاتی سوچ پرمبنی ہوتا ہے۔اگر سفارتی اسرار رموز اور باریکیوں اور عوامی رابطوں پر یقین رکھنے والا کوئی سفارت کار تعینات ہو تو اس کے مثبت اثرات محسوس کئے جاتے ہیں کمونٹی کے لوگ بھی اپنی محفلوں میں اس کی تعریف میں بخل سے کام نہیں لیتے لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سفارت کار اشرافیائی ذہن کے ساتھ خود کو ایک الگ سیارے کی اور عوام کو دوسرے سیارے کی مخلوق سمجھنے کے خبط میں مبتلا ہو تو اس کا اثر بھی کمونٹی میں محسوس کیا جاتا ہے ۔بیرون ملک بسنے والے پاکستانی جب ان ملکوں کے نظام کا موازنہ پاکستان سے کرتے ہیں تو رنج وحزن کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتے ہیں ۔یہ تضاد انہیں بدترین احساس کمتری کا شکار کرنے کا باعث بنتا ہے ۔پاکستان کے سفارت خانوں میں ایک بھرپور آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے مگر جب تک خود پاکستان میں رویے تبدیل نہیں ہوتے بیرونی دنیا میں قائم چھوٹے پاکستانوں میں انسانی رویے کس طرح تبدیل ہو سکتے ہیں ۔سعودی عرب کے پاکستانی سفارت خانے سے شروع ہونے والایہ سلسلہ اگر ایک گرینڈ سفارتی آپریشن کی بنیاد بن جائے تو اس سے پاکستانی کمونٹی کے ماضی کے دکھوں کا مداوا بھی ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان