haider javed said 20

سماجی بیانیہ اور ایک سوال

ہمیں (اس ملک میں بسنے والے تمام طبقات) کو بطور ضامن یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمہ قسم کی نفرتوں اور عداوتوں کیساتھ فرقہ وارانہ کشمکش سے نجات کیلئے ایک ایسے سماجی بیانیہ کی ضرورت ہے جس میں کوئی فرد یا طبقہ عددی اکثریت کے بل بوتے پر دوسروں کو اپنے فہم تاریخ وعقیدے کی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش نہ کرے تاکہ تضادات بڑھنے کی بجائے کم ہوں، سماجی بیانیہ درحقیقت1973ء کے دستور کی ان شقوں کی رہنمائی میں تشکیل پائے گا جن میں دستور کے ذریعے ریاست یہ وعدہ کر رہی ہے کہ ہر شخص کے سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی حقوق کی فراہمی اور حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کا ہی یہ فرض ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ کوئی شخص دوسرے کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرے نا اپنی فہم اس پر مسلط کرے۔ ان تمہیدی سطور کی وجہ پچھلے کچھ عرصہ سے بننے والے حالات ہیں ایک ایسے ملک میں جو کثیرالقومی اور کثیرالمسالکی ہو بہت ضروری ہے کہ ریاست ڈھل مل کی پالیسی ترک کر کے اپنے دستوری فرائض ادا کرے۔ ثانیاً یہ کہ ہمیں انفرادی اور طبقاتی طور پر بھی شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ یہ ہمارا ملک ہے ہم سب اس کے مالک ومختار ہیں۔ ایک فرد یا خاندان جس طرح کا خوشگوار ماحول اپنے گھر میں دیکھنے کا آرزومند ہے ویسا ہی خوشگوار ماحول ملک میں بھی ضروری ہے تاکہ یہ امر دوچند ہو کہ ہم ایک ایسی سماجی وحدت کی تشکیل چاہتے ہیں جو مساوات کے اصول پر مبنی ہو۔ یہ اس صورت ممکن ہے جب ہر شخص اپنا کردار ادا کرے اور ریاست اپنا، سانپ گزر جانے پر لکیر پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں، نفرتوں اور عداوتوں کے کاروبار کے نتائج ہم پچھلے چالیس برسوں میں دیکھ بھگت چکے ہیں، آج کے حالات میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ناکہ ماضی کی طرف پلٹنے کی کیونکہ ہمارا ماضی کچھ شاندار نہیں یہ بات عام شہری اہل علم اور حکومت تینوں سمجھ لیں تو سب کے مفاد میں ہے۔ اس لئے مناسب ہوگا کہ ہم اپنی اپنی ڈفلی بجانے سے گریز کریں اور سماج کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھیں۔
دوسرا مسئلہ بلوچستان میں ایک ٹریفک سارجنٹ کو گاڑی کے نیچے دے کر قتل کرنے والے سابق رکن صوبائی اسمبلی مجید اچکزئی کی ماڈل کورٹ سے باعزت بریت ہے۔ موقع واردات کی ویڈیو اور بعدازاں مجید اچکزئی کی اور اس کے خاندان وحواریوں کی جانب سے مقتول ٹریفک سارجنٹ کے خاندان کو دھمکانے اور ترغیب کے شواہد موجود تھے، پھر بھی عدم ثبوتوں کی بنا پر وہ بری کر دیئے گئے۔ عدالت کے احترام میں سرجھکا کر ادب سے سوال کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہوں۔ حضور، اچکزئی بے گناہ ہے تو مقتول ٹریفک سارجنٹ کا قاتل کون ہے؟ یا پھر یہ کہ وکلاء صفائی نے یہ ثابت کیا ہے کہ مقتول جان بوجھ کر تیز رفتار گاڑی کے سامنے کود پڑا تھا؟ بندہ پرور ایسا نہیں ہے، عدالت کا فیصلہ سر آنکھوں پر مگر بہت ادب کیساتھ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اور چیف جسٹس آف پاکستان دونوں سے درخواست ہے کہ اس فیصلہ پر ازخود نوٹس لیا جائے۔ صاحبان اولاد سکتہ میں ہیں، مکرر وضاحت کردوں کہ ایک شہری کے طور پر نظام انصاف کی مجموعی صورتحال پر عدالتوں کے احترام کے باوجود اُٹھتے سوالات اور لوگوں کی آراء ان سطور کے ذریعہ بااختیار حلقوں تک پہنچانا اخبار نویس کا فرض ہے۔
اب آجائیں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے حوالے سے غلیظ ترین پوسٹیں کر کے شہرت حاصل کرنے والی امریکی شہری سنھتیاڈی رچی کے معاملہ پر، اس خاتون کو ورک ویزے کی درخواست پر دو بار بزنس ویزا دیا گیا، کس کے حکم پر ایسا ہوا؟ تحقیقات کون کرے گا۔ بزنس ویزے پر آنے والی خاتون خیبر پختونخوا حکومت اور آئی ایس پی آر جیسے حساس ادارے کیساتھ ملکر کام کرتی رہی، اس کے بعض بے ہودہ ٹویٹس نے ہمارے سماج کے ایک بڑے طبقے کی توہین کی، اس توہین کے باوجود وہ وی آئی پی پروٹوکول کیساتھ دندناتی پھرتی ہے تو کیوں؟ یہ سطور دستیاب معلومات پر کامل اعتماد کی بنیاد پر لکھ رہا ہوں کہ 15دن کیلئے ویزہ میں اضافے کا حکم نامہ صرف اس خاتون کو قانونی مشکلات اور جوابدہی سے بچانے کیلئے جاری کیا گیا۔ یہ حکم نامہ ایسے وقت میں آیا جب یہ سکینڈل سامنے آچکا تھا کہ پچھلے دوسالوں کے دوران سینکڑوں غیرملکیوں کو ویزوں کے اجراء کے وقت قوانین کی پاسداری نہیں کی گئی۔ ان میں عام شہری کتنے تھے جاسوس کتنے۔ کون جانے۔
اب مختصراً کراچی کی صورتحال، حالیہ بارشوں سے پورا صوبہ سندھ متاثر ہوا ہے۔ خود خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی مون سون کی بارشوں سے اطمینان بخش صورتحال ہرگز نہیں لیکن ہر طرف کراچی کراچی ہو رہا ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے ایک علاقہ میں نالہ کے کنارے قائم تعمیرات کیخلاف آپریشن ہوا، اس وقت جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو آپریشن والے علاقے کے سینکڑوں مرد وزن شہر کی مصروف سڑک پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں، ان کے پاس بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے تعمیرات کا اجازت نامہ اور لیز کے کاغذات موجود ہیں، لیز 30سے60سال تک کیلئے ہے اور بعض خاندانوں کے پاس 90سال کی لیز کے کاغذات ہیں۔ اب ہونا یہ چاہئے کہ جن مشیر صاحبان یا ایڈمنسٹریٹروں نے لیز کا اجراء کیا انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے کہ کیسے انہوں نے غیرقانونی کام کئے۔ عجیب بات یہ ہے کہ لیز بلدیہ نے دی اور گالیاں سندھ حکومت کو دی جارہی ہیں۔

مزید پڑھیں:  ضمنی انتخابات کے نتائج