سنگ آمد و سخت آمد

وزیر اعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے ممکنہ معاہدے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھنے کی جو بات کی ہے اسے موجودہ شدید ترین مہنگائی سے دوچار غربت کی چکی میں پسے ہوئے عوام کے لئے کسی بدخبری سے کم ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ فارسی کے ایک مصرعے میں”سنگ آمد و سخت آمد” ہی سمجھا جا سکتا ہے جس کے بعد عام غریب آدمی کا کیا حشر ہونے والا ہے اس بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اگرچہ اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں غریب آدمی نے ہمیشہ قربانی دی ‘ زلزلہ ہو یا سیلاب قدرتی آفات میں ہمیشہ غریب آدمی پر بوجھ پڑا ‘انہوں نے کہا کہ پوری کوشش ہے کہ پاکستان کو مشکلات سے نکالیں ‘ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے نتیجے میں عام آدمی پر بوجھ پڑا تو وہ سوال تو اٹھائے گا کہ حکومت نے کیا کیا؟ اس موقع پر وزیر اعظم نے ملک میں سرکاری سطح پر کفایت شعاری مہم کا آغاز کرتے ہوئے جن اقدامات کا اعلان کیا ہے اس کا بہرحال خیرمقدم کیا جانا چاہئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو غربت کی چکی میں پسنے والے غریب عوام کی مشکلات کا بخوبی اندازہ ہے اور ان حالات سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم نے کابینہ کے وزراء کی تنخواہیں اور مراعات بند کرنے کا اعلان کیا ہے’ لگژری گاڑیوں کی نہ صرف درآمد بند کی جا رہی ہے بلکہ انہیں نیلام کیا جائے گا ‘ اسی طرح ایکڑوں پر پھیلے ہوئے سرکاری گھر بھی نیلام کئے جائیں گے’ سرکاری ملازمین ایک سے زیادہ پلاٹ نہیں لے سکیں گے’ جس پر اگر حقیقی معنوں میں عمل کیا گیا تو کفایت شعاری مہم کامیابی سے ہمکنار ہونے کے امکانات خاصے روشن ہو سکتے ہیں ‘ امر واقعہ یہ ہے کہ ماضی کی تمام حکومتوں نے بلا تخصیص ملک کو قرضوں میں جکڑنے اور بیرونی قرضوں کو اللوں تللوں پر خرچ کرنے یا پھر لوٹ کھسوٹ کرکے مبینہ طور پر ذاتی منفعت کے لئے استعمال کیا ‘ اب حالات یہ ہیں کہ قومی وسائل کا غالب حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے بلکہ نوبت بہ ایں جارسید کہ قرضوں کی اقساط تو ایک طرف ان قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے پر ہم مجبور ہو چکے ہیں، جبکہ ایک غریب قوم کے وسائل کو جس بے دردی سے مختلف سرکاری اداروں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے لٹانے کی پالیسی اختیار کی گئی اس سے ہم آج اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ ہمیں مزید قرضوں کے حصول کے لئے کشکول بدست ہوکر آئی ایم ایف جیسے اداروں کے سامنے جانا پڑ رہا ہے ‘ اس حد تک جانے کی ذمہ داری کسی ایک حکومت پر نہیں ڈالی جا سکتی بلکہ ہر آنے والی حکومت نے سابقہ حکومتوں کا ریکارڈ توڑنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کرایک دوسرے پرسبقت لے جانے کی دوڑ میں حصہ لیا’ ابتداء ہی سے پارلیمنٹ پر جاگیرداروں اورصنعتکاروں کا قبضہ رہا ہے ‘ جاگیرداروں نے ہر دور میں تمام تر مراعات سے بھرپور استفادہ کرکے بھی خود کو ملکی وسائل میں حصہ ڈالنے کا پابند نہیں بنایا اور ایکڑوں پر پھیلی ہوئی زرعی زمینوں سے سالانہ اربوں کھربوں کی آمدن وصول کرکے بھی ملک میں زرعی ٹیکس کے نفاذ کے لئے قانون سازی نہیں ہونے دی’ اسی طرح صنعتکاروں اور بڑے تاجروں نے بھی حکومتوں کو دبائو میں لا کر ٹیکسوں میں چھوٹ حاصل کرکے تجوریاں بھریں’ ان تمام طبقات کے ذمے واجب الادا ٹیکس غریب عوام بالواسطہ طور پر ادا کرنے پر مجبور ہوئے اور حکومت نے جب بھی ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیا تو ان طبقات نے یہ ٹیکس نہایت سہولت کے ساتھ عام غریب عوام تک منتقل کرکے اپنی پیداوار ‘ مصنوعات وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ کرکے خود کو بچایا ‘ دوسری جانب ملک کی اپنی پیداوار گندم ‘ چاول ‘ چینی کے تاجروں نے کارٹل بنا کر پہلے حکومت کو ”اضافی؟” پیداوار کے نام پر یہ اشیاء برآمد کرنے کے اجازت نامے دینے پر مجبور کیا اور یہ چیزیں برآمد کرکے منافع سمیٹا تو بعد میں ملک میں قلت کے بہانے خود اپنی ہی برآمد کردہ اشیاء دوبارہ وطن واپس لانے کے لئے امپورٹ لائسنس حاصل کر کے پھر تجوریاں بھریں جبکہ اس دوران ”قلت” کے نتیجے میں بھی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر مہنگائی مسلط کر دی، یوں چت بھی میری پت بھی میری کے ”فارمولے” کے تحت بے پناہ کمائی کرکے عوام پر مہنگائی مسلط کرنے کے مواقع سے بھر پور استفادہ کیا جاتا ہے۔ حکومت نے کابینہ کے حوالے سے جن اقدامات پرعمل کرکے کفایت شعاری مہم کا آغاز کیا ہے اور ایکڑوں پر پھیلی سرکاری رہائش گاہیں فروخت کرنے کا عندیہ دیا ہے اس سے یقیناً قومی بچت میں اضافہ ہو گا اور ناجائز اخراجات پر قابو پانے میں مدد ملے گی تاہم اس مہم کو صرف کابینہ تک محدود نہ رکھا جائے اور بعض دوسرے ادارے جن کا اس موقع پرکوئی تذکرہ سامنے نہیں آیا ان کوبھی آمادہ کیا جائے کہ وہ اس قومی امتحان میں قربانی کے حوالے سے اپنا اپنا حصہ ڈالیں تاکہ غریب عوام پر بوجھ کو کم کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا