سہولت کاروں کا گھیرا تنگ

خیبرپختونخوا پولیس نے 9 اور 10 مئی کے واقعات میں ملزموں کے سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق 9 اور 10 مئی (جنہیں اب پاکستان کا نائن الیون قرار دیا گیا ہے) کے واقعات میں ملوث ملزموں کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، اب تک سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ہیں جبکہ مزید گرفتاریاں جاری ہیں، پولیس ذرائع کے مطابق پشاور سمیت مختلف اضلاع میں پرتشدد مظاہروں اور جلائو گھیرائو کے واقعات میں ملوث ملزموں کو سہولت فراہم کرنے والوںکے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی، امر واقعہ یہ ہے کہ اب تک جیوڑفنسنگ اور سی سی ٹی وی کیمروں کے علاوہ سوشل اور ریگولر میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز اور تصویروں کی مدد سے سینکڑوں افراد کو حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جاچکے ہیں جبکہ ان فوٹیجز میں نظر آنے والے لاتعداد ایسے افراد اب بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہیںجن کے بارے میں ان شکوک کا اظہار کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے گزشتہ دنوں کچھ اخباری اور میڈیا اشتہارات کے ذریعے ان کی تصویریں شائع اور وائرل کرکے عوام سے ان کی گرفتاری میں تعاون کی درخواست کی تھی تاہم صوبہ خیبر پختونخوا میں ایسے اشتہارات سامنے نہیں آئے تاہم اب یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ محولہ مظاہروں اور واقعات میںملوث افرادکے خلاف جو اب تک بوجوہ قانون کی گرفت میں نہیں آسکے حالات کو مزید سخت کرتے ہوئے ان کو پناہ دینے والوں یا اور کوئی سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی قانون کے تحت کارروائی کرتے ہوئے ایسے سہولت کاروں کے خلاف دفعہ 212 کے تحت (ثبوت ملنے پر) کارروائی کرتے ہوئے مقدمات میں شامل کیا جائے گا۔ ملزموں کو جس مکان سے گرفتار کیا جائے گا اس کے مالک کے خلاف بھی سہولت کاری کی دفعات کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، مذکورہ فیصلہ ملزموں کی عدم گرفتاری کے پیش نظر کیا گیا ہے جہاں تک ملزموں کی قانون کی گرفت سے بچنے کی کوششوں کا تعلق ہے اس پر اس محاورے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ یہ لوگ جتنی دیر تک قانون کی گرفت سے بچنے کی کوششیں کریں گے ان کے خلاف قانون کی گرفت نہ صرف مضبوط ہوتی جائے گی بلکہ اس کے نتائج بھی اتنے ہی سنگین ہوں گے، بہترہے کہ یہ لوگ خود کو رضاکارانہ طور پر قانون کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے عدالتوں سے ریلیف لینے کی کوشش کریں بلکہ جن مقامات پر چھپ رہے ہیں وہاں کے مالکان (اگر رشتہ دار ہوں تو بھی اچھا نہیں ہے) کیلئے بھی تکلیف کا باعث نہ بنیں، سہولت کاروں کو بھی سوچنا چاہئے کہ قانون سے بھاگے ہوئے ملزموں کو پناہ دے کر وہ بھی قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں حالانکہ وہ براہ راست قانون توڑنے کے ذمہ دار نہیں ہیں تاہم سہولت کاری بھی جرم ہی کہلاتی ہے، اس لئے جن کو پناہ دی جاچکی ہے انہیں یہ سہولت کار خود ہی سمجھا بجھا کر سرنڈر کرنے پر آمادہ کریں تو بہترہوگا۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ