سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے

کہتے ہیں دنیا میں بنیادی طور پر صرف سات کہانیاں ہیں جن کو بدل بدل کر نئی کہانیاں، نئے افسانے تراشے جاتے ہیں اور کمال صرف انداز بیان کا ہوتا ہے جوکہانی کار اپناتے ہوئے کہانی بنتے اور افسانے تراشتے ہیں یہ کام اس وقت سے ہو رہا ہے جب سے انسان نے اظہار پر قدرت حاصل کی ہے، اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ ابتدا میں کہانی کا موضوع محبت اور نفرت ہی تھا، باقی تمام کہانیاں اپنی جذبوں کے وجود سے پھوٹتی چلی گئیں۔ یعنی بقول شاعر
میں نے رکھا ہے محبت اپنے دیوانے کا نام
تم بھی کچھ اچھا سا رکھ لو اپنے پروانے کا نام
ارشاد احمد صدیقی نے پشاور میں جنم لیا مگر کسب معاش انہیں نئی دنیائوں کی سیر کراتا کراتا امریکی بحریہ تک لے گیا، جہاں انہوں نے ایک طویل عرصہ امریکی میرینز کے طور پر سمندروں کو تسخیر کرتے ہوئے گزارا جس کے دوران انہوں نے لا تعداد ساحلوں کا نظارہ کیا، ان ساحلوں سے جڑے شہروں کی معاشرت کا قریب سے جائزہ لیا اور اپنی یادوں کی زنبیل میں لاتعداد کہانیاں محفوظ کرکے اردو ادب کو مالا مال کرنے کیلئے اب ان کے پاس بہت وقت اور مواقع ہیں۔ کہانی تو وہ تب سے کہہ رہے ہیں جب وہ آج سے نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے اپنی جنم بھومی پشاور کے ادبی حلقوں میں افسانہ نگار کی حیثیت سے سرگرم تھے تاہم امریکی بحریہ میں خدمات بجا لاتے ہوئے وہ جن نئی دنیائوں کی تسخیر میں مگن تھے تو ان کا مشاہدہ وسعت پذیر ہوتا گیا اور ان کے فن میں گہرائی اور گیرائی نے ان کی کہانیوں کو نئے انداز میں ڈھالنے میں مدد کی گویا بقول سیف الدین سیف
سیف انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
ارشاد احمد صدیقی سے پہلی ملاقات ہمدم دیرینہ مرحوم تاج سعید کی وساطت سے آج سے کئی برس پہلے ہوئی تھی جب میں ریڈیو پاکستان میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا اپنے پروگرام کمرشل سروس کی نوک پلک سنوار رہا تھاتاج سعید ریڈیو میں میرے ساتھی تھے ، وہ ارشاد احمد صدیقی کو میرے کمرے میں لیکر آئے اور ان کے بارے میں بتایا کہ ہمارے پرانے دوست اور افسانہ نگار ہیں، تب سے ارشاد صدیقی کے ساتھ تعلق قائم ہے، اس دوران ان کی اکثر تحریریں مرحوم جوہر میر کے ادبی رسالے زاویہ کے توسط سے اردو ادب کے قارئین تک پہنچتی رہی ہیں، جوہر میر ضیاء الحق کے دور میں حالات سے مجبور ہو کر امریکہ چلے گئے تھے جہاں وہ کسب معاش کے ساتھ ساتھ ادب و شعر سے اپنا رشتہ جوڑے ہوئے تھے اور وہاں حلقہ ارباب ذوق کو فعال بنانے میں بھی اہم کردار ادا کر رہے تھے، پھر انہوں نے زاویہ کے نام سے ایک ادبی جریدے کا اجرا کیا تو اردو دان طبقے نے رسالے کی خوب پذیرائی کی ‘ جوہر میر نے بھی ارشاد احمد صدیقی
کے افسانوںپر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ اگر ارشاد احمد صدیقی کے بعض افسانوں کو انگریزی زبان مل جاتی تو ان کو عالمی سطح پرپذیرائی مل سکتی ہے، جوہر میر مرحوم کا محولہ مضمون دیباچہ یا اظہار یہ جو بھی اسے نام دیا جائے۔ زیر نظر افسانوی مجموعے” دوسری خدائی” کا حصہ بناکر ارشاد احمد صدیقی نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کیونکہ جوہر میرنے یہ مضمون ارشاد احمد صدیقی کو اپنے افسانوں کے مجموعے کی اشاعت پر آمادہ کرتے ہوئے لکھ کر دیا تھا مگر بوجوہ مجموعہ بہت تاخیر سے سامنے آیا ہے جوہر میر اپنے مضمون میں نہ صرف اپنی رائے لکھتے ہوئے ارشاد احمد صدیقی کے فن کی پذیرائی ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ”یوں تو سبھی افسانے در دل پر دستک دیتے ہیں لیکن ان کے افسانے عہد نامہ اور ناموس میں زندگی اذیت سے چیختی نظر آتی ہے۔ افسانہ بزکشی پڑھنے کے بعد میں چند لمحے سکتے میں آ گیا، اس افسانے کی جزویات Treatment کوارشاد احمد صدیقی نے مشاق لکھاری کی طرح نبھایا ہے۔ اگر یہ افسانہ انگریزی زبان میں لکھا جاتا تو پڑھنے والوں کی بہت بڑی تعداد اس سے مستفید ہوتی ۔ یہ انداز تحریر و تفکر آپ کو دوسری خدائی پہلی جنت ، کوئلہ بھی نہ راکھ اور زاویہ میں بھی نظر آئے گا، یہ افسانے سارے گلوبل ویلیج کا المیہ ہیں جو کائنات کے حسن و جمال پر معاشرتی نا انصافیوں کو بے دردی سے حاوی ہوتے دیکھتا ہے اور یہ امر ادیب کے دل پرچر کے لگاتا ہے اور اس قسم کا قلم غیر جانبداری سے المیہ میں ڈوب کر اس کے در تہہ پردے کھولتا ہے، ڈاکٹر اعجاز راہپی مرحوم سے کون واقف نہیں، بطور ایک نقاد ان کا قلم نشتر کا کردار ادا کرنے سے کبھی نہیں چوکتا تھا، جوہر میر نے اعجاز راہی کے ایک تجزیاتی مقالے کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد احمد صدیقی کے افسانوں پر ان کے تبصرے کو سند کا درجہ قرار دیا ہے کیونکہ ڈاکٹر راہی ایک ایسے نقاد ہیں جو کسی شاعر اور ادیب کو خوش خطی کے نمبر نہیں دیتے، جبکہ ارشاد احمد صدیقی کے بارے میں ڈاکٹر اعجاز راہی ‘آغا بابر اور احمد ندیم قاسمی نے ارشاد احمد صدیقی کے افسانوں کو ارتقائی تسلسل میں زندگی آمیز اور زندگی آموز قرار دیا۔ یوں توان نابغہ روزگار اہل قلم نے بقول مرحوم امجد اسلام امجد واضح کر دیا ہے کہ
لفظ سے بھی خراش پڑتی ہے
تبصرہ سوچ کر کیا کیجئے
کیلیفورنیا(امریکہ)میں مقیم ایک اہم قلمکار خاتون نیئر جہاںنیئر آپا نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کے ارشاد احمد صدیقی کا نام نہ تو اردو ادب کیلئے نیا ہے اور نہ ہی لاس اینجلس کے اردو دانوں اور اردو نوازوں کے لئے۔ ان کا نام اپنائیت کی حد تک پہچانا جاتا ہے، اگر لاہور اقبال پر، اعظم گڑھ کیفی اعظمی پر ‘مراد آباد جگر مراد آبادی پر فخر کر سکتے ہیں تو لاس اینجلس میں ہم بڑے افتخار سے ارشاد احمد صدیقی کے نام پر فخر کر سکتے ہیں۔ محترمہ نیئر آپا کی بات سے جزوی اختلاف کرتے ہوئے اتنا کہنے کی جسارت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ارشاداحمد صدیقی پر لاس اینجلس والوں کو فخر کرنے پر ہمیں اعتراض نہیں ہے مگر اس فخر میں ہم اہل نہیں اور کا بھی حصہ بنتا ہے کیونکہ نہ صرف ارشاداحمد صدیقی ، بلکہ ڈاکٹر سید امجد حسین، عتیق صدیقی ، انور خواجہ اور خالد خواجہ پر بھی ہمیں فخر اور مان ہے۔ آخر الذکر دونوں بھائیوں کا تعلق اگرچہ پشاور سے نہیں ایبٹ آباد سے ہے مگر ان کی زندگی کا بیشتر حصہ پشاور میں ادب و شعر کی آبیاری کرتے گزرا ہے اس لئے انہیں بھی ہم پشاوری سمجھتے ہوئے ان پر فخر کرتے ہیںکہ بقول شاعر
یہ تو ‘توہین وفا ہے کہ تجھے بھول کے ہم
اپنے زخموں پہ کسی اور سے مرہم چاہیں
جیتندر بلو(لندن) نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کے مغرب میں آباد اردو زبانی کے کہانی کاروں کا یہ المیہ ضرور ہے کے وہ ناستا لجیہ سے الگ نہیں ہو پاتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بیرونی معاشروںمیں جھانک کر بھی نہیں دیکھتے، بلند پایہ افسانہ نگار ارشاد احمد صدیقی تیز نظر رکھتے ہیں، مشاہدہ بھی گہرا ہے ان کی کہا نیاں تجسس اور فنی لوازمات پر مبنی ہوتی ہیں۔ وہ مغرب کی تیز گام مادی زندگی کے تمام مثبت کی ہے اور منفی پہلوئوں سے کماحقہ واقف ہیں ورنہ وہ”کوئلہ بھی نہ راکھ” جیسی مایہ نازکہانی لکھ پاتے ۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ”ارشاد احمد صدیقی کے افسانوں کو کسی طلسمی دنیا میں بند کرنے کے بعد ان پرایک لیبل چسپاں نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک بات یقیناً کہی جا سکتی ہے ‘ ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح ان افسانوں کے کردار ‘ بہ زباں حال ‘ اس وطن کو نہیں بھولے جس کو چھوڑ ے ہوئے افسانہ نگار کوایک مدت ہو گئی ہے”۔
اوپر کی سطور میں نیئرآپا کے تبصرے پرجوچند لفظ ہم نے لکھنے کی جسارت کی ہے ‘ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کے تبصرے نے ان پر مہر تصدیق ثبت کر لی ہے کہ ارشاد احمد صدیقی ‘ ڈاکٹر سید امجد حسین ‘ عتیق صدیقی آج تک اس مٹی کی گرفت سے خود کوآزاد نہیں کرسکے جہاں انہوں نے جنم لیا بلکہ شعور کی آنکھ بھی کھولی ‘ اس لئے وہ جب بھی موقع ملتا ہے اسی مٹی کی خوشبو مشام جاں میں اتارنے کے لئے کھچے چلے آتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے