شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!

صوبہ خیبر پختونخوا جو پہلے ہی غیر ملکی قرضوںتلے دبا ہوا ہے اور جس کی ذمہ داری موجودہ برسراقتدار جماعت کے سابقہ ادوار کی حکومتوں کی غیر ضروری طور پر لئے جانے والے قرضوں پر لگائی جاتی ہے جبکہ اس صورتحال کی وجہ سے صوبائی خزانے میں اتنی رقم بھی موجود نہیں کہ سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو تنخواہیں اور پنشن بروقت ادا کی جاسکے ، مگر اتنی نازک صورتحال کے باوجود موجودہ انتظامیہ اپنی شاہ خرچیاں روکنے کی بجائے بلا ضرورت پر تعیش اقدامات کر رہی ہے گزشتہ چند روز سے میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی اس خبر نے تہلکہ مچا دیا تھا کہ صوبائی حکومت دو اہم عہدیداروں کیلئے دو کروڑ 44لاکھ روپے کی قیمتی گاڑیاںخریدنے کا ارادہ رکھتی ہے اس حوالے سے عوامی سطح پر مسلسل احتجاج کے بعد اگرچہ تیار کردہ سمری مسترد کر دی ہے تاکہ مخالفانہ احتجاج کا خاتمہ ہوسکے تاہم اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ شور شرابا تھمنے کے بعد اس سمری کودوبارہ منظوری کیلئے فائل ورک مکمل کرلیا جائے گا؟ ایک غریب ، قرضوں میںدبی ہوئی ، بیرونی امداد کیلئے ہاتھ پھیلائی ہوئی قوم کے حکمران جس طرح پرتعیش زندگی گزارنے میں مصروف ہیں اس پرانہیں اگر شرم نہیں آتی تو کم از کم ایسے اقدامات سے گریز کے بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟