شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ

یوں تو تحریک انصاف کے قائد نے یہ شرط رکھ دی کہ اگراُنہیں امریکی سائفر کی تحقیقات کرنے کی یقین دہانی کر دی جائے کہ ان کے اقتدار کو کس سازش سے ختم کیا گیا تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت قومی اسمبلی میں واپس آکر بیٹھ سکتے ہیں۔ان سطور کی اشاعت سے قبل اس حوالے سے نئی پیشرفت ہوئی ہے جس سے قطع نظر ان کی یہ آمادگی بڑی خوش آئند ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے مُلک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔ عوام سیاسی افراتفری اور معاشی بحران کی شدت سے عاجز آچکے ہیں ۔ ہم نے تو بارہا اپنے کالموں میں لکھا کہ مُلک کی عوامی قیادت نے قومی سطح کے فیصلے ہمیشہ ایوان میں بیٹھ کر کیے ہیں ، سیاست کو کبھی بھی بازاروں میں رُسوا نہیں کیا۔ اگرچہ سپریم کورٹ کے پانچ جج صاحبان نے اپنے فیصلے میں اس سازش کو جھوٹ اور مفروضہ قرار دیا ہے۔ بلکہ چند روز قبل سپریم کورٹ نے تو تحریک انصاف کو یہ مشورہ بھی دیا کہ لانگ مارچ اور جلسے جلوس کی بجائے پارلیمنٹ میں اپنا سیاسی فریضہ ادا کرنا چاہیے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی بڑھتی ہوئی شخصی پذیرائی کی وجہ سے تحریک انصاف کے قائد کو یہ یقین بھی ہو چلا ہوگا کہ اُن کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات روشن ہیں ، اسی لیے اُنہوں نے برملا کہا ہے کہ اگر دوبارہ اقتدار ملا تو وہ ماضی کی غلطیاں بالکل نہیں دہرائیں گے۔ ان تمام باتوں اور تحریک انصاف کے بدلتے بیانیوں کے باوجود ہمار ے چند سنجیدہ دوست یہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کی شخصی خوبیوں، اخلاص مندی اور مُلک و قوم کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ بلا شبہ مسلمہ اور مقبولِ عام ہے ، اس لیے اپنی موجودہ تحریک اور جد وجہد کو بالائے طاق رکھ کر اس خیال سے پھر قومی اسمبلی آنے کا ارادہ باندھا ہے کہ تما م اراکین ِ اسمبلی اُنہیں نکال کر اب پچھتا رہے ہیں ۔ اُنہوں نے اقتدار سے محرومی اور اس سے جڑی مایوسی و بد حواسی کو اپنے اوپر مسلط ہونے نہ دیا اور بڑی ذہانت مگر شاطرانہ انداز میں قبل از انتخاب عوامی رابطہ مہم جاری رکھی جس سے اُنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس میں صرف اُن کی شخصیت کا سحر شامل ہے ورنہ تحریک انصاف میں کوئی ایسا نہیں جو سامنے آکر عوام کو اِکٹھا کر سکے اور نہ کوئی سیاسی فکر پائی جاتی ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومتی کارکردگی مایوس کن رہی مگر تمام خامیوں کے باوجود بھی آج پلہ بھاری ہے تو یہ ان کے قائد کا وعدہ ہے جووہ چور اور ڈاکو سیاستدانوںسے قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر اُنہیں سزا دیں گے ۔یہی وہ مقبول سیاست ہے اور یہی وہ مقبول بیانیہ ہے ، جس کے باعث اہل سیاست کا آپس میں مکالمہ نہیں ہو رہا ۔ تحریک انصا ف کو یوں مل بیٹھنے سے مقبولیت کے کم ہونے کا خدشہ لاحق ہے۔ اب یہی بیانیہ ان کی پہچان ہے لیکن زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ مُلکی اور عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے وگرنہ اس بار موقع ملا تو مایوس کن کارکردگی وبالِ جان ہوگی ۔ کیا کیا جائے کہ اب بھی کسی قومی یا عوامی ترجیح کا تعین نہیں کیا گیا بس اُسی بیانیہ کا واویلہ ہے۔ ہمارے ان دوستوں نے خان صاحب کی قومی اسمبلی واپسی سے یہ اُمید بھی لگا رکھی ہے کہ شاید اپنے اس بیانیہ سے وہ یو ٹرن لینے کی سوچ رکھتے ہوں کیونکہ ان کی نظر میں یو ٹرن لینا اعلیٰ قیادت کا ایک وصف ہے۔ مان لیا کہ اپنی بات پر قائم رہنا ایک آدمی کی بلکہ بڑے انسان کی پہچان ہوا کرتی ہے لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ حالات خراب ہو جائیں اور کوئی ایسی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں تو ایک لیڈر کے لیے اپنی پالیسی یا راستہ تبدیل کرنے کا جواز پیدا ہو سکتا ہے تاکہ کوئی بہتری لا سکے۔ ویسے تو ایک مقبول اور بڑا لیڈر خود حالات کوبدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور دوسروں کے فیصلے بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ خاص کر ہمارے ہاں سیاست میں مصلحت اور موقع پرستی ایسے میں بڑا سازگار ماحول بھی پیدا کر دیتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر ہوگی کہ لیڈر بار بار اپنے فیصلے بدلنے سے نہیں بلکہ اپنے وعدوں پر قائم رہنے سے پہچانا جاتا ہے اور صرف یہ کہنا بھی کافی نہیں بلکہ مشکل تو یہ ہے کہ جب کرپشن کے خلاف ایک جہاد کا اعلان کیا جا چکا ہو توپھر اقتدار کی خاطر اپنے اس وعدہ کو توڑنا بھی کرپشن کی ایک شکل ہے۔ یہ بات تسلی بخش ہے کہ ماضی میں بہت سے سیاسی مخالفین تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ بنے رہے اور یہ دلیل بھی دی گئی کہ کرکٹ کے کھیل میں کپتان کا کردار نمایاں ہوتا ہے جو فتح پانے کے لیے اپنی اسٹرٹیجی بدل سکتا ہے۔گویا اب اگر اسمبلی واپس آنے اورگلی کوچوں میں احتجاجی روئیے کو ترک کرنے کا فیصلہ یو ٹرن نہیں صرف مخالفین کے پچھتاوے کی وجہ سے کیا ہے تب بھی یہ ایک مثبت اقدام ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ خواہ مخواہ انہیں اپنی تنقید کا نشانہ بنائیں گے اور تحریک انصاف کے کارکن اس عمل کو پسند نہ کریں مگر موقع کی مناسبت سے پالیسی میں ردوبدل کرنا جائز ہے ۔ اس فیصلہ سے مُلک میں سیاسی استحکام پیدا ہوگااور مستقبل میں اس کے خوش گوار اثرات رونما ہوں گے۔ تاریخ شاہد ہے کہ انہی ممالک اور معاشرے میںترقی اور خوشحالی دکھائی دیتی ہے جہاں رہنے والے ایک دوسرے پر اور اپنے اداروں پر پوری طرح اعتبار کر سکتے ہوں۔ بھروسے اور اعتماد کی فضا ہی میں زندگی کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں