افغان عوام کو امداد کی ضرورت

شکست بانجھ نہیں ہوتی

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کا بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کی شکست پر ردعمل مناسب اور بادلیل ہے۔یقینا ہار جیت سسٹم کا حصہ ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی قیادت نے خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن میں شکست کو مہنگائی کی وجہ قرار دیتے ہوئے شکست تسلیم کرلی ہے اور حکومتی ممبران نے دعویٰ کیا ہے کہ لوگ مہنگائی کی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں اور آئندہ تین ماہ میں مہنگائی ختم کرکے تمام ناراض کارکنوں کو رام کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر شبلی فراز نے کے پی کے بلدیاتی انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اس لیے ہاری کہ پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو14اضلاع میں کامیاب ہوسکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن میں کارکنوں کو متحرک نہیں کرسکے، اب اگلے انتخابات میں حکمت عملی تبدیل کریں گے اور پارٹی ڈسپلن قائم کریں گے۔ صوبائی وزیر عاطف خان نے بھی شکست کیلئے مہنگائی کو ٹھہرایا ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو اس بات کا احساس تھا کہ مہنگائی کے مسائل کی وجہ سے پارٹی کی مقبولیت کا گراف نیچے آئے گا لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ حکومتی ممبران نے دعویٰ کیا ہے کہ لوگ مہنگائی کی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں اور آئندہ تین ماہ میں مہنگائی ختم کرکے تمام ناراض کارکنوں کو رام کرلیا جائے گا۔ان حالات میں خیبر پختونخوا کے17اضلاع کی 64تحصیلوں میں جمعیت علماء اسلام نے 20 جبکہ حکمران جماعت تحریک انصاف نے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی عوامی نیشنل پارٹی نے 7′ آزاد امیدواروں نے 10′ مسلم لیگ( ن) نے 3′ جماعت اسلامی نے دو اور پیپلز پارٹی نے ایک نشست پر کامیابی حاصل کی ہے۔حکومتی عناصر کونتائج کے حوالے سے توجیہہ پیش کرنے کا حق ضرور حاصل ہے اس ضمن میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کامختصر مگرجامع تبصرہ سے قطع نظر مہنگائی کووجہ گردانتے ہوئے اس پرقابو پا کر بازی پلٹانے کا جو عندیہ دیا گیا ہے یہ اتنا آسان نہیں صوبے میں مہنگائی ہونے کا اگر دوران انتخابات اعتراف اور ادراک کیاجاتا تب شاید صورتحال خود اپنے کارکنوں کے لئے مایوس کن نہ ہوتی اور وہ بد دل نہ ہوتے مگر یہاں تومہنگائی سے انکار کا موقف اختیار کیاگیا اور اب برعکس موقف ہے جسے سیاسی زبان میںبھی بیان کرنا یہاں شاید مناسب نہیں موقف اختیار کرتے ہوئے اس کے ٹھوس ہونے اور مدلل ہونے کی طرف توجہ اور پھر اس پر قائم رہنے اور اس کا دفاع کرنے کی ریت اب بھی اختیار نہ کی گئی تو آخر کب ایسا ہو گا۔انتخابات میںہارجیت کھیل کاحصہ ہے ہار کا تجربہ غلطیوں کاادراک اورآئندہ اس سے گریز ہی بہتر فیصلہ ہواکرتا ہے جس کی طرف توجہ کی ضرورت ہے جو ہوچکا اس کا تو مداوا ممکن نہیں باقی اضلاع میں سرتوڑ کوشش کرکے تحریک انصاف سرخرو ہوسکتی ہے۔
امریکا ضد چھوڑ دے
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے افغانستان کیلئے امریکی نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ سے ملاقات میں کہا ہے کہ دنیا اور خطہ غیرمستحکم افغانستان کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ملاقات میں آرمی چیف نے افغانستان کو انسانی المیے سے بچانے کے لیے عالمی توجہ پر زور دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق امریکی خصوصی نمائندے نے افغان صورتحال میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت دونوں ہی مسلسل عالمی برادری کی توجہ افغانستان کے معاملات کی طرف مبذول کرنے کی سعی میں ہے ایک ہمسایہ ملک ہونے کے ناتے ایسا کرنے کی ضرورت بھی ہے امر واقع یہ ہے کہ افغانستان کے داخلی حالات سے سب سے زیادہ متاثر بھی پاکستان ہوتا ہے سرحد پار کے حالات کے اثرات سے ہم کسی طرح لاتعلق نہیں رہ سکتے۔او آئی سی کانفرنس کے فیصلے اور اقدامات کا اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو اس کانفرنس میں رکن ممالک کی دلچسپی اور امداد بارے رویہ مایوس کن رہا آرمی چیف نے ایک مرتبہ پھر خطے کے عدم استحکام بارے امریکی عہدیداروں سے بات چیت کی ہے بار بار کی توجہ دلانے کے باوجود امریکا اور دنیا کا رویہ افغانستان کے عوام سے لاتعلقی کا ہے اس کا بالاخر کیا نتیجہ نکلے گا اور ماضی کہیں اپنے آپ کو نہ دہرائے دنیا کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر افغان حکومت اس مشکل سے گزر گئی جس طرح جنگجوئوں نے سخت حالات میں بھی بقاء کی جنگ کامیابی سے لڑی اور اس کا نتیجہ کیا سامنے آیاامریکی حکام کو اس پر غور کرنے اور افغانستان میں انسانی المیہ رونما ہونے سے قبل افغان عوام کی مدد کا فریضہ نبھانا چاہئے۔
پولیس کی بعد از وقت کارروائی
پشاور میں جیت کی خوشی میں فائرنگ کے افسوسناک واقعات کی روک تھام میں تو پولیس کو ضرور ناکامی ہوئی لیکن ہوائی فائرنگ کرنے والے درجنوں افراد کی گرفتاری اور مزید معلومات کے حصول کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں کا سلسلہ قابل اطمینان امر ہے ۔ دیکھا جائے تو پولیس اس طرح کے مواقع پر خود ہی تھانوں اور چوکیوں میں دبک جاتی ہے اور بالا دستوں کے ہاتھ نہیں روکتی برموقع کارروائی ہی ٹھوس قدم شمار ہوتا ہے بہرحال سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹتے پیٹتے بھی اگر چند اوباش قسم کے لوگوں کو گرفتار کیا جائے تو یہ بھی غنیمت ہو گی۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟