شہادتوں کی داستان

پاکستان کی پارلیمانی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جاتے تو ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وطن عزیز میں کبھی بھی جمہوری پودے کو پروان چڑھنے نہیں دیا گیا۔ کرپشن، اقرباء پروری کا الزام لگا کر متعدد بار عوام کے منتخب نمائندوں کو گھر کی راہ دکھائی گئی اگر بات گھر تک محددود رہتی تو شاید پاکستان کی جگ ہنسائی اس قدر نہ ہوتی جتنا ہمارا مقدر بن چکی ہے بلکہ عوام کے منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔کس جرم میں پھانسی کی سزا سنائی گئی سب خاموش ہیں شہادت سے پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو نے جہاں نئی تاریخ رقم کی وہیں ان کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی سیاسی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، قیام پاکستان کے بعد جب ملک کے اندر سیاست نے نت نئی کروٹیں لیں اور کئی سیاستدان سیاسی دوڑ میں اتر آئے ایسے میں 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی عوام کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری جس کے بعد بھٹو خاندان جمہوریت دشمنوں کیخلاف پاکستانی سیاست میں جدوجہد کا آغاز کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہا دیکھتے ہی دیکھتے بین الااقوامی سطح پر اس خاندان کی سیاست کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے سبب ایک جرم سمجھا جانے لگا اور نادیدہ طاقتیں اس خاندان کو مٹانے کیلئے سر گرم عمل ہو گئیں۔ پہلے پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ناکردہ جرم کے طور پر سزائے موت سنائی گئی گو کہ انہیں اس بات کا موقع بھی دیا گیا کہ وہ معافی نامہ داخل کریں اور آمرضیاء کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے نئے طرز کی کٹھ پتلی سیاست کریں مگر اس عظیم ہستی نے سر جھکانے کے بجائے سر کٹانے کو ترجیح دی اور پھانسی کے پھندے کو جول کر امر ہو گیا اس کے بعد بھی اس خاندان کے اندر اصولوں کی سیاست کے نام پر شہادتوں کا سلسلہ جاری رہا جس کے تحت 18جولائی 1985ء کو شاہنواز بھٹو کو زہر دے کر قتل کیا گیا تو دوسری طرف میر مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996ء کو اپنی بہن کے دور اقتدار میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا بیگم نصرت بھٹو جو صدمات جھیل جھیل کر بے حال ہو چکی تھیں وہ بھی 23اکتوبر 2011ء کو دبئی کے ایک ہسپتال میں اس جہاں سے کوچ کر گئیں۔ اس خاندان کی شہادتوں کا سفر اسی طرح جاری رہا جس میں کچھ عرصے کا وقفہ ضرور آیا مگر پھر ٹھیک 38 سال بعد بھٹو کی صاحبزادی محترمہ بینظیر بھٹو جنہیں پاکستان میں انتہائی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا حکومت کے منع کرنے اور دھمکیاں ملنے کے باجود نہ صرف پاکستان آئیں بلکہ عوام کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا، 27 دسمبر 2007ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن تھا جسے تاحیات فراموش نہیں کیا جا سکے گا ۔
بینظیر بھٹو شہید کے بارے میں سوچتے ہوئے ایک غمزدہ ماحول میں ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ انہیں ہم سے جدا ہوئے 14سال بیت گئے ہیں انہیں 27 دسمبر 2007 کو ایک حملے میں شہیدکر دیا گیا تھا ۔ اپنی شہادت کے دن انہوں نے لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک بہت بڑے عوامی جلسے سے خطاب کیا تھا۔ وہ اپنے جلسے کی کامیابی پر بہت خوش تھیں۔ جلسہ ختم ہوا تو اپنی گاڑی پر جلسہ گاہ سے رخصت ہو رہی تھیں۔ اس دوران وہ گاڑی کا بالائی حصہ کھول کر کھڑی ہو گئیں تاکہ اپنے مداحوں کے نعروں کا جواب دے سکیں۔ ابھی انہوں نے اپنا سر باہر نکالا ہی تھا کہ ان پر اچانک سے فائرنگ اور خود کش دھماکہ ہو گیا اور وہ گرگئیں۔ ان کے سر پر بہت شدید چوٹیں آئیں۔ انہیں ہسپتال لے جایا گیا۔ اس حملے میں وہ اس قدر زخمی ہو ئیں کہ انہیں بچایا نہ جا سکا۔ اس طرح پاکستان کی سیاست کا ایک بہت بڑا کردار اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ سیدھی بات یہ ہے کہ محترمہ کی شہادت اور ان کی زندگی کے باب کا خاتمہ اس قدر ہو جائے گا ایسا نہ تو ہماری قومی سیاست کے گمان میں تھا نہ ہی پیپلزپارٹی اور اس کے کارکن جیالے کبھی سوچ سکتے تھے کہ وہ ان کی قیادت سے محروم ہو جائیں گے۔ بینظیر بھٹو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے اعتبار سے ہمارے جد ید عہد کی ایک بہت بڑی سیاسی لیڈر ہی نہیں بلکہ لیڈر شپ کا رول ماڈل تھیں ۔ ان کے تین بچے ہیں جن کی انہوں نے اعلیٰ درجے کی تربیت کی ، وہ بہترین ماں،مثالی بہن اور وفا شعار شریک حیات تھیں، ایک بیٹی کی حیثیت سے وہ ایسی اولاد تھیں جس پر ان کا باپ اور ماں فخر کر سکیں۔
آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہترین تقریر کرنے والی ایک انتہائی خوبصورت خاتون جس نے 35 سال کی عمرمیں وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ پاکستان میں جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کیلئے ایک مضبوط امید اور اپنے عوام کی نمائندہ طاقتور آوزار تھیں۔ نیوز ویک نے ان کی موت پر ”پاکستان میں جمہوریت کی ہیرو” کے عنوان سے اداریہ لکھا جس میں کہا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو ملک میں جمہوریت کی بحالی کا ایک نمونہ تھیں لیکن ان کی موت کے بعد پاکستان ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس میں آسانی سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
آج وطن عزیز میں پھر ایسی صورتحال ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی ذمہ داریوں میںاضافہ ہوا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے نوجوان بلاول بھٹو کو بحثیت وزیر خارجہ سیاسی میدان میں اتارا ہے۔اب تک کی صورتحال کے مطابق بلاول بھٹو ایک کامیاب وزیر خارجہ ثابت ہوئے ہیں۔ قومی امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں وہ مزید بہتر طریقے سے پاکستان کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑیں گے ۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان