صرف آٹھ لاکھ غریب؟

حکومت کی جانب سے یوٹیلٹی سٹورزکے حوالے سے تازہ فیصلہ یکسر نامناسب اس لئے نہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز سے رعایتی نرخوں پراشیائے صرف سے استفادہ کرنے والوں کی کافی تعدا د ممکنہ طور پر ایسی ہوگی جن کی آمدن معقول ہو لیکن ان افراد کے مقابلے میں اس سے استفادہ کرنے والے عام لوگوںکی تعداد نہایت کثیر تھی جوحکومت کے تازہ فیصلے کے بعد اس سہولت سے محروم ہوں گے ۔بینظیرانکم سپورٹ پروگرام میں اولاً سارے مستحقین ہی رجسٹرڈ نہیں اورجو اس سہولت کے زمرے میں تونہیں آتے لیکن ان کی آمدن نہایت محدود ہوتوایسے افراد کے لئے حکومت کے پاس کیا مراعات و سہولیات ہیں مشکل امر یہ ہے کہ حکومت کے پاس مستحق افراد کا کوئی قابل اعتماد ڈیٹا موجود ہے اور نہ ہی حکومت منصوبہ بندی کے ساتھ کم آمدنی والے افراد کی مالی مدد پر توجہ دے رہی ہے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں عدلیہ سے لے کر بیورو کریسی اورصاحب ثروت افراد کی امداد وصولی کی فہرستوں کا اجراء کوئی پرانی بات نہیں اب بھی اس حوالے سے بے شمار شکایات موجود ہیںجن کا حل حکومت کے پاس نہیں بہرحال اس صورتحال سے قطع نظرتازہ فیصلے کے مطابق یوٹیلیٹی اسٹورز پر سستی اشیاء کی ہر شہری کو یکساں فراہمی ختم کردی گئی ہے اور اب صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کیساتھ رجسٹرڈ صارفین کو ٹارگٹڈ سبسڈی ملے گی۔حکومت کی دانست میںملک کے بائیس کروڑ عوام میں سے صرف آٹھ لاکھ افراد ہی رعایتی نرخوں پراشیاء کی خریداری کے مستحق ہیں ان کوحکومت کی جانب سے مالی مدد اور رعایتی نرخوںپراشیاء کی فراہمی ہونی چاہئے حالانکہ اگر صحیح معنوںمیں جائزہ لیاجائے تومستحقین کی اتنی تعدادایک ہی شہر میں موجود ہو گی اس سے قطع نظراس فیصلے کا اگر کاروباری نقطہ نظرسے جائزہ لیا جائے توایک ایسے وقت جب ملک بھر کے سٹوروں سے ہر آدمی مستفیدہو سکتا تھا اورسٹورز سے خریداری ہوتی تھی اس وقت جب سٹورز خسارے میںجارہے تھے تو اب توگاہکوں کی کم تعداد کے باعث سٹورز کا کرایہ اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی شاید ہی ہوسکے اس فیصلے سے بہتر یہ ہو گا کہ حکومت یوٹیلٹی سٹورز بند کرکے آٹھ لاکھ ر جسٹرڈمستحقین کو ملنے والی امداد میں سبسڈی کی وہ رقم شامل کرے جوحکومت ادا کرتی ہے اس طرح سے ان کی مدد بیھ ہو جائے گی اور ملازمین کی تنخواہوں ‘ سٹورز کا کرایہ بجلی کا بل اورٹرانسپورٹ کے کرایوں کے مد میں خرچ ہونے والی رقم کی بچت بھی ہو گی۔جس معیار کی اشیاء یوٹیلٹی سٹورز پرملتی ہیں اس سے صارفین پہلے ہی نالاں تھے رعایتی قیمت کے خاتمے کے بعد شاید ہی کوئی مارکیٹ ریٹ پراشیاء کی خریداری کے لئے یوٹیلٹی سٹورزکارخ کرے سوائے چند اشیاء کے پہلے سے ہی یوٹیلٹی سٹورز پراشیاء مارکیٹ ریٹ پر ہی فروخت ہوتی رہی ہیں تازہ حکومتی فیصلے سے عام صارفین کس قدرمتاثر ہوتے ہیں اس سے قطع نظر حکومتی فیصلے سے خود حکومت کامتاثر ہونا یقینی ہے۔
بات حقوق کی ہے
پاکستان کے دوانتہائی حساس علاقوں گوادراورگلگت بلتستان میں ان دنوں حقوق کے حوالے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں ان دونوں خطوں کاپاک چین اقتصادی راہداری سے بھی گہرا تعلق ہے اس لئے ان خطوں کے عوام کی آوازپرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ایک ایسے وقت میں جب ملک کو دہشت گردی کے واقعات اور ابتر معاشی مسائل جیسی مشکلات کا سامنا ہے ملک کے حساس علاقوں میں احساس محرومی اورعوام میں بے چینی نہایت پریشان کن امر ہے گلگت کے عوام کامطالبہ ایک زمینی حقیقت ہے جن کے تحفظات دور کرکے ان کومطمئن کیا جانا چاہئے بلوچستان میں حالات سنگین اور بدترین ہوتے جارہے ہیں گلگت ہو یا گوادر یاپھر سندھ عوام کے مسائل کابراہ راست تعلق ذریعہ معاش اورروزگار سے ہے اور وہاں کے عوام اپنے وسائل سے استفادہ کے متمنی ہیں ان مطالبات کوکوئی دوسرا نام بھی نہیں دیا جا سکتا سوائے اس کے کہ ان مطالبات کے حوالے سے ان میں پھیلنے والی مایوسی سے دیگر عناصر فائدہ اٹھا کر احساس محرومی کاشکار نوجوانوںاور افراد کوگمراہ کر رہے ہیں جس کاواحد حل ان کے جائز مطالبات پر توجہ ہے بلوچستان کوحقوق دینے کانعرہ ہرآمرو جمہوری دو ادوارمیں لگایا جاتا رہا فنڈزکا اعلان بھی ہوتا آیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں کا عام آدمی ہر دورمیں مجروم ہی رہا ہے اور اب بھی یہی صورت ہے اور ان علاقوں میں محرومی کے احساس میں شدت کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ عوام کو ان کاجائز حق نہیں دیا جاتا اوران کے وسائل پرقابض ہونے کی عملی کوشش کی جاتی ہے جس سے بے چینی پھیلنا فطری امر ہے حکومت کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آواز سنی جائے اوران کو حقوق دے کرحقیقی طور پرمطمئن کرکے بے چینی کا خاتمہ کیاجائے عوام کو ان کے وسائل پر وہ حق جو آئین اوردستور کے مطابق ان کا حق بنتا ہے اگر فراہم کیا جائے تو بے چینی کاخود بخود خاتمہ ہو گا اور صورتحال خود بخود بہتر ہو جائے گی۔
سی این جی بندش لاحاصل
سی این جی سٹیشن بند کرنے کے حکم کے باوجود شہر میں اکثر سی این جی سٹیشنز پر گیس سپلائی اور فروخت کا جاری رہنا مذاق سے کم نہیں انتظامیہ کی جانب سے حکم نامہ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے شہریوں نے تشویش کا اظہاربجا ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ اعلان پر فوراً عملدرآمد میں تاخیر ہوئی ہو گی اور حکام یکے بعد دیگرے سی این جی سٹیشنز کوگیس کی سپلائی معطل کرنے کویقینی بنا رہے ہوں گے صورتحال دنوں میں بہتر نہ ہوئی توعوام کے پاس سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہ رہے گا جو حکومت اور عوام دونوں کے لئے اچھی صورت نہ ہوگی۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام