طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں

ستر کی دہائی میں سابق صدر ایو ب خان کے خلا ف جب عوامی تحریک اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس وقت یہ سننے کو ملا تھا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ، یہ نعرہ مستانہ مرحوم ذوالفقارعلی بھٹو نے ایو ب خان کی کابینہ سے فارغ ہوجانے کے بعد قوم کو دیا تھا ، یہ حقیقت ہے کہ اس زماے میںبھی عوام میں شراکت اقتدار الگ تھلگ رکھے جا نے کااحساس بدرجہ اتم پایا جا تا تھا اور محسو س کیا جا تا تھا کہ قوم کی قسمت کا فیصلہ چند مخصوص قوتوں کے ہاتھ میں ہے یہ ہی احساس محرومی ایو ب خان کے خلاف عوامی تحریک کا موجب بنا تھا ، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ شراکت کے بغیر اقتدار کبھی دیر پاثابت نہیں ہو ا کرتا ہے ، گو کہ بھٹومر حوم کے دور میں بھی عوام طاقت کا سر چشمہ نہیں بن سکے اور پھر یہ نعرہ ایسا مٹی ہو ا کہ دوبارہ کانوںکو نہیں سنائی دیا اب کئی عشرے بعد یہ سننے کو ملا ، سپہ سالا ر پاکستان جنرل عاصم منیر نے اسپیکر قومی اسمبلی پر ویز اشرف کی زیر صدارت قومی سلا متی کمیٹی کے ان کیمرہ اجلا س میں شفا ف کہہ دیاکہ آئین کے تحت اختیار پارلیمنٹ اور منتخب نمائجندوں کے ذریعے استعمال ہو گا ، سپہ سالا ر پاکستان کے یہ واشگاف الفاظ اس امر کے غما زی ہیں کہ پارلیمنٹ کو آئینی طور پر بالادستی حاصل ہے کیو ں کہ پارلیمنٹ براہ راست عوام کی نمائندگی کر تی ہے اور ملک کے فیصلے کر نے کا اختیار عوام کا ہی ہے گویا پارلیمنٹ کے اختیار ات میں مداخلت نہیں کی جا سکتی ،جنر ل عاصم کے اس دو ٹوک اعلا ن کے بعد ان تما م عناصر کو کا ن ہو جا نا چاہیں جو خود کو طاقت کا منبع سمجھتے ہیں یا گر دانتے ہیں ، اس اجلا س کے دوران چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے آئین پاکستان کے نفاذ کے پچاس سال مکمل ہونے پر پارلیمنٹ اور ارکا ن کو مبارک دیتے ہوئے کہا کہ اختیارات کا مرکز پاکستان کے عوام ہیں ، آئین پاکستان اور پارلیمنٹ عوام کی رائے کا مظہر ہیں ، عوام اپنی رائے آئین اور پارلیمنٹ کے ذریعے استعمال کر تے ہیں ۔ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اللہ تعالیٰ کے اس حکم سے ہی آئین کو اختیار ملا ہے ، آئین کہتا ہے کہ اختیار عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہو گا ، جنرل عاصم منیر نے یہ مئو قف ایسے وقت میں کھول کررکھ دیا ہے جب پاکستان اس وقت بعض طاقتوں کی انفرادی مفادات و خواہشات کی بھنیٹ چڑھا نظر آتا ہے ، سپہ سالا ر کا مئوقف پوری فوج کی ترجما نی ہوتی ہے اور جس انداز کے بعض حلقوں کی جانب سے اڑئی جا رہی تھیں چیف آف آرمی اسٹاف کے الفا ظ نے ان کو شفاف بنا دیا ہے گویا اب کسی کی خواہشات کو ملک کے امور میں عمل دخل کا درجہ حاصل نہیں ہو گا ۔ فیصلہ عوام ہی کریں گے اور عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے یہ ہی آئین کا اصول وحسن ہے ، آئین کی بالا دستی کا تقاضا ہے فرد واحد یا کسی گر وہ کی انا یا اس کے مفادات یا اس کی خواہشات کوئی حثیت نہیں رکھتیں ، مثلاًپنجاب اسمبلی اور کے پی کے اسمبلی کو تو ڑ نے کا معاملہ ہے اس کا جائزہ لینا چاہیے کیا یہ فیصلہ آئین کی بالا دستی کا تقاضا پورا کر تا ہے یا کسی فر د واحد کی خواہش پر دونوں صوبوںکی اسمبلیاں قربان کر دی گئیں ۔ اس امر سے انکا رنہیںکیا جا سکتا کہ صوبائی اسمبلیاں توڑنا وزیرااعلیٰ کے اختیار میںہے لیکن اسمبلیو ںکو توڑنے کا کوئی جواز بھی ہو نا چاہیے ، مثلاًاگر ایسے حالات پیدا ہو جا تے ہیں کہ صوبائی حکومت موجودہ عوامی نمائندگی میں کاروبار اقتدار چلا نے سے عاجز ہو جائے تو پھر اس کا حل یہ ہے کہ اسمبلی کو فارغ کرکے عوام سے از سر نو مینڈیٹ حاصل کرلیا جائے تاکہ رکا وٹوں کو دور کیا جا سکے ، اور حکومت آئین و قانون کے مطا بق اپنے فرائض انجام دینے کی استعداد پالے ، اگردیکھاجائے ایسی کوئی افتاد موجو د نہیں تھی کہ پنجا ب اور کے پی کے کی اسمبلیو ں کو تو ڑ دیا جائے یہ صاف نظر آتا ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین کو موجودہ حکومت کے خلا ف پے درپے چلائی گئی تحریکو ں میںناکامی اٹھانی پڑ ی تو انھو ں نے اپنے سیا سی حربے کے طور پر دونو ں صوبوں کی اسمبلیاں توڑ نے کا اعلا ن کر دیا ، اس حقیقت سے انکا ر نہیںکیا جا سکتا کہ پنجا ب اور صوبہ کے پی کے میں کوئی ایسے حالا ت نہیںتھے کہ نئے عوامی مینڈیٹ کی ضرورت پڑ گئی تھی ۔ علا وہ ازیں سابق وزیر اعلیٰ پر ویز الہی کی فواد چودھری کی گرفتاری پرتبصرہ کی جو آڈیو اور ویڈیو لیک ہوئی اور اس امر کا ثبوت فراہم کررہی ہے کہ بذات خود سابق وزیر اعلیٰ پنجا ب پر ویز الہی اسمبلی توڑ کو تیا ر نہیں تھے ۔لیکن دیکھنے میں آیا کہ کسی ادراے یا طبقے یا قوت نے اس امرکا کوئی نو ٹس نہیں لیا کہ صوبائی اسمبلیاںکیوں تحلیل کی جا رہی ہیں کیا ان کو تحلیل کرنے کا کوئی جو از موجود ہے کہ عوام کے پانچ سالہ مینڈیٹ کو ایک خواہش پرا کھاڑ پھینکا جا ئے ، بلکہ ہر طرف سے انتخابات انتخابات کا دباؤ بڑھا یا جا رہا ہے ، انتخابات سے کوئی جمہو ری فکر و سوچ انکا ر نہیں کرسکتی ا ن کا انعقاد ہونا لازمی ہے لیکن اس وقت کی جو صورت حال منظر عام پرہے وہ صر ف اورصرف پنجاب میں انتخابات کاپیٹواڈالا ڈالا جا رہا ہے جبکہ اسمبلی تو کے پی کے صوبے کی بھی تحلیل کی گئی ہے ، پنجا ب اورکے پی کے دونو ں صوبوں کی اسمبلیاں ایک ہی روز تحلیل ہوئی ہیں چنا نچہ جہا ں آئین کی رو سے پنجا ب اسمبلی کے انتخابات لا زمی ہیں اسی طرح صوبہ کے پی کے میں بھی انتخابات اہمیت کے حامل ہیں ، پنجا ب کو کسی بنیا د پر اہمیت دی جارہی ہے اور کے پی کے کو کیو ں نظر انداز کیا جا رہا ہے ، اندیشہ ہے کہ اس طر ز عمل سے کے پی کے عوام میںاحساس محرومی بڑھ جائے گا ۔چنا نچہ دونوں صوبوں کی اسمبلیا ں ایک ہی روز تحلیل ہو نے کی بنیا د پر انتخابات بھی اسی بنیا د پر ہونا چاہیں ، پنجا ب میں انتخابات کی جو ڈور ڈالی جارہی ہے اس برائے میں تبصرنگار اور نا قدین جو آراء پیش کر رہے ہیں کوئی اس سے کلی اتفاق کر ے نہ کرے تاہم اتنا ضرور ہے کہ کچھ طا قتیں ماہ ستمبر کے اختتام سے پہلے اپنا ہدف اٹھا لے جانا چاہتی ہیں ، جو ان کے وجو د کے لیے ضروری بھی ہے چنا نچہ انھو ں نے اپنا پلڑ ا پنجا ب کی طر ف جھکا ئے رکھا ہے ، اور اسی کا وش میں نظر آرہی ہیں ، کیوںکے ستمبر کے بعد پاکستان کے حالا ت میں نما یا ں اور خوشگوار تبدیلیا ں متوقع محسو س کی جا رہی ہیں لیکن وہ فوری انتخابات کی خواہش رکھنے والو ں کے لیے خوش کن نہیں ہیں ۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے