قومی آبی پالیسی پر مؤثر عملدرآمد ناگزیر

گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان کو غیر معمولی طور پر گرم اور مرطوب موسم اور انڈس بیسن کینال سسٹم (دریائے سندھ سے پانی کی نہری نظام میں شمولیت) میں پانی کی غیرمعمولی کمی کا سامنا ہوا ہے جس سے ہر قسم کی کاشتکاری کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور پن بجلی گھروں سے بجلی کی پیداوار میں کمی آئی جب کہ شہری علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت بھی پیدا ہوئی۔نہری نظام میں پانی کے بہاؤ میں کمی آنے سے پانی کی تقسیم پر بین الصوبائی تنازعات نے بھی جنم لیا۔ موسمیاتی ماہرین نے اس آبی بحران کو موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے جوڑتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی آفات اب ایک نیا معمول بننے کا خدشہ ہے۔ حالیہ آبی بحران پاکستان کی اس پہلی اور جامع قومی آبی پالیسی پر عمل درآمد میں تیزی لانے کی نشاندہی کرتا ہے جسے مشترکہ مفادات کونسل نے منظور کیا تھا اور24 اپریل2018 ء کو اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے دستخط کئے تھے۔
قومی آبی پالیسی بنانے کا فیصلہ 2003 ء میں کیا گیا تھا اور مشترکہ مفادات کونسل نے غیر ملکی کنسلٹنٹس کی مدد سے تیار کیے گئے مسلسل چھ مسودوں پر غور کیا تھا لیکن کسی ایک مسودے پر بھی اتفاق رائے قائم نہیں ہو سکا تھا۔ بالآخر24 نومبر2017 ء کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں آبی پالیسی تیار کرنے کے لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک بین الصوبائی کمیٹی تشکیل دی جو اس وقت کے منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین تھے، اس کمیٹی میں منصوبہ بندی و ترقی، توانائی اور آبی وسائل کے وفاقی وزراء ، آبی وسائل، پاور ڈویژن اور پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے وفاقی سیکرٹریز اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز شامل تھے۔ کمیٹی نے پالیسی کے نفاذ کے ذرائع، مالی وسائل کے تخمینے اور اس پر عمل درآمد کے لیے ضروری ادارہ جاتی انتظامات کو شامل کرتے ہوئے قومی آبی پالیسی کے پہلے مسودے کو حتمی شکل دی۔24 اپریل 2018 ء کو مشترکہ مفادات کونسل نے پالیسی کے اس مسودے پر غور کیا اور اس متفقہ طور پر اس کی منظوری دی تھی۔
قومی آبی پالیسی پانی میں متعلقہ مسائل جیسا کہ آبادی میں اضافے کی وجہ سے پانی کی مقدار میں کمی اور اس کا معیار گرنا، تمام صارفی شعبوں کی بڑھتی ہوئی طلب، سپلائی کے دوران پانی کا ضیاع ، آب پاشی کے قدیم طریقوں جیسے مسائل کا بھی احاطہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ آبی وسائل پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا بھی ادراک کیا گیا۔ 2019ء تا 2030ء کی مدت کے لیے تیار کی گئی قومی آبی پالیسی کے تحت کئی اہداف مقرر کئے گئے جن میں نئے ڈیموں کی تعمیر سمیت پانی کی ذخیرہ کرنے کی موجودہ صلاحیت کو 24 ملین ایکڑ فٹ تک بڑھانا، کم سے کم پانی کے استعمال سے زیادہ رقبہ سیراب کرنے کے حامل آب پاشی کے جدید طریقوں کو بروئے کار لانا، دہائیوں پرانے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے کی بتدریج تبدیلی اور تجدید کاری، متعلقہ قومی پالیسیوں اور پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق پینے کے پانی اور صفائی کے منصوبوں کو ڈھالنا۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے ذریعے ٹیلی میٹرک ٹیکنالوجی کے ذریعے دریا کے بہاؤ کی بروقت مانیٹرنگ اور پانی کے شفاف اکاؤنٹنگ سسٹم جیسے کئی اہم اہداف شامل ہیں۔مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کے لیے قومی آبی پالیسی کا تقاضا ہے کہ سرکاری شعبے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) کا کم از کم 10 فیصد پانی کے شعبے کے لیے مختص کیا جائے اور اسے2030 ء تک بتدریج بڑھا کر 20 فیصد کر دیا جائے۔اسی طرح صوبے بھی پانی کے شعبے کے لیے مختص فنڈز میں اضافہ کریں۔ مالی سال 2017-18ء کے پی ایس ڈی پی میں پانی کے شعبے کو صرف چار فیصد فنڈز ملے تھے۔ مالی سال 2022-23ء کے لیے اس مختص رقم کو800 ارب روپے کے کل پی ایس ڈی پی میں سے گیارہ اعشاریہ تین فیصد تک بڑھاتے ہوئے 91.6 بلین روپے کر دیا گیا ہے۔
قومی آبی پالیسی میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ آبی ذرائع کے مربوط انتظام کے لئے اعلیٰ ترین مہارتوں اور علم کی ضرورت ہے تاکہ پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکے ، اس کے علاوہ پالیسی میں وسیع پیمانے پر ادارہ جاتی اصلاحات اور استعدادکار بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے ۔ قومی آبی پالیسی کے تحت ایک قومی آبی کونسل قائم کی گئی جس کے سربراہ وزیر اعظم ہیں اوراس میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ/آبپاشی کے وزرا ء شامل ہیں، قومی آبی پالیسی کے نفاذ کا جائزہ لینے اور اس میں ہم آہنگی کے لیے کونسل کا سال میں کم از کم ایک اجلاس ضروری ہے۔چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم جلد از جلد قومی آبی کونسل کا اجلاس بلائیں تاکہ قومی آبی پالیسی پر عملدرآمد کی صورتحال کا جائزہ لیا جا سکے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے نظام الاوقات کے ساتھ بہتر انداز میں اقدامات کے لیے لائحہ عمل کی منظوری دی جائے۔( بشکریہ، دی نیوز، ترجمہ :راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل