مبینہ امریکی سازش کے پھواڑے کا”انجام”

سفارتی مراسلے کے نام پر مبینہ امریکی سازش والے عمران خان کے بیانیہ پر عدم اعتماد کی وجہ خود خان صاحب کا شوقِ یوٹرنز ہے اب نیا قصہ یہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم نے پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ آزاد و خوشحال اور مضبوط پاکستان دیکھنا چاہتا ہے۔ سازشی نظریات کی باتیں اور الزامات بدقسمتی ہیں ان میں کوئی صداقت نہیں۔ انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کسی بھی مرحلہ پر پاکستان سے فضائی اڈوں کے لئے بات چیت یا رابطہ کی بھی تردید کی۔ ڈونلڈ بلوم کا مزید کہنا تھا کہ معمول کی سفارتی ملاقاتوں میں مختلف ایشوز پر اتفاق یا اختلاف ہوتا رہتا ہے، ان سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے جانے کے بعد سے سابق وزیراعظم عمران خان تواتر کے ساتھ اس موقف کا اعادہ کرتے آرہے ہیں کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے تحت گرائی گئی وہ معمول کے سفارتی مراسلے کو اب بھی سازشی خط کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ چند اندرونی غداروں نے امریکہ کے ا یما پر ان کی حکومت گرانے والوں کی مدد کی۔ گزشتہ سے پیوستہ روز لیک ہونے والی اپنی آڈیو کے بعد بھی ان کا کہنا تھا کہ سازشی خط والی میری بات درست ثابت ہوگئی۔
انہیں احساس ہی نہیں کہ ان کے بیانیہ کی قیمت پاکستان کو چکانی پڑرہی ہے۔ انہوں نے اس سوال کو ہمیشہ نظرانداز کیا کہ8مارچ کو موصول ہونے والے سفارتی مراسلے سے اگر ان کے موقف امریکی سازش کی تصدیق ہوتی تھی تو انہوں نے عوامی جلسہ میں اسے لہرانے کی بجائے فوری طور پر قومی سلامتی کمیٹی، کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کونسل اور پارلیمان کے اجلاس کیوں طلب نہ کئے یہ بھی کہ کیا بطور وزیراعظم انہوں نے تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لئے اقدامات کئے؟ یہ بجا ہے کہ انہوں نے ایک ریٹائر جنرل کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا مگر کمیشن کے نامزد سربراہ نے معذرت کرلی کیا ان کی معذرت کے بعد کمیشن کی ضرورت اور افادیت ختم ہوگئی تھی؟ اصولی طور پر تو انہیں سفارتی مراسلہ موصول ہونے اور عہدہ سے الگ ہونے کے درمیانی ایک ماہ کے دوران ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے تھا جس سے مبینہ سازش کی حقیقت دوچند ہوتی اس کے برعکس انہوں نے جو طرزعمل اپنایا اس سے یہ تاثر قائم ہوا کہ آزادانہ اور شفاف تحقیقات سے زیادہ وہ بلیم گیم کے ذریعے اپنے ہمدردوں میں یہ تاثر برقرار رکھنے کے خواہش مند تھے کہ امریکہ ان کی حکومت کو پسند نہیں کرتا تھا اس ناپسندیدگی کو انہوں نے اپنے دورہ روس سے منسلک کرکے صورتحال سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی حکمت عملی اپنائی ان کی اس حکمت عملی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف منظم مہم چلائی گئی۔ بعض جلسوں میں ایسے نعرے لگائے گئے جن پر وہ اپنے دور اقتدار میں مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے انہیں فوج اور ملک کا دشمن ٹھہراتے رہے۔
سابق وزیراعظم کا نام لئے بغیر امریکی سفیر نے سازشی بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے جن خیالات کااظہار کیا یہی سفارتی انداز تکلم ہے۔ اس پر دو آرا نہیں کہ پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ مکمل خوشگوار یادوں سے عبارت ہے نا ہی دشمنیوں سے، دو طرفہ تعلقات میں اونچ نیچ در آتی ہے۔ بڑی طاقت سے تعلقات کار استوار کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک اپنے مفادات کو اولیت دیتے ہیں اسی طرح بڑی طاقتیں اپنے مفادات کو۔پاکستان ایسا ملک جو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے حوالے سے امریکی اتحادی شمار ہوتا ہو اس کے خارجہ امور کے ماہرین حکمرانوں اور سیاستدانوں کو پاک امریکہ تعلقات پر بات کرتے ہوئے سنبھل سنبھل کر ایک ایک لفظ ادا کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود اگر عمران خان بطور وزیراعظم یہ سمجھتے تھے کہ اپوزیشن کی ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کسی امریکی سازش کا حصہ ہے تو بلاتاخیر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاتے سارا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھ کر پارلیمانی یا عدالتی تحقیقات کے لئے کمیشن کے قیام کی تجویز رکھتے۔ ان کے موقف کو دو تین روز قبل لیک ہونے والی اپنی آڈیو میں موجود گفتگو سے تقویت نہیں ملتی۔ گو کہ وہ اپنی ہی گفتگو پر من پسند تاویلات پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی آڈیو لیک کرکے سفارتی مراسلہ پر ان کے موقف کے درست ہونے کا ثبوت عوام کے سامنے رکھ دیا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔سابق وزیراعظم نے جمعرات کو آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے سفارتی مراسلے کا پھر ذکر کیا ان کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ وہ معمول کے سفارتی مراسلہ کو دھمکی آمیز خط کا نام دے کر سیاسی بحران کو ہوا دینے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ بظاہر تو امریکی سفیر کی وضاحت کافی ہے پھربھی اگر وہ اپنے موقف کو درست سمجھتے ہیں تو پارلیمنٹ میں واپسی کا راستہ اپنائیں پارلیمنٹ ہی وہ فورم ہے جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کر کے پارلیمانی یا عدالتی کمیشن کے قیام کی تجویز پیش کرسکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ اب حکومت اس حوالے سے پہل کرے اور عدالتی کمیشن کے قیام کی طرف بڑھے تاکہ سابق وزیراعظم اپنے موقف کو عدالت میں ثابت کرسکیں البتہ اس صورت میں یہ سوال اہم ہوگا کہ کیاوہ اپنے مطالبہ پر بننے والے عدالتی کمیشن کے فیصلے کو کھلے دل سے تسلیم کریں گے؟ یہ سوال اس لئے اہم ہے کہ مرضی کے خلاف فیصلے کو نہیں بلکہ اپنے حق میں دیئے جانے والے فیصلے کو ہی وہ انصاف کی بالادستی قرار دیتے سمجھتے ہیں۔ اندریں حالات ہم ان کی خدمت میں درخواست ہی کرسکتے ہیں کہ وہ مبینہ دھمکی آمیز خط کی تحقیقات کروانے سے قبل حکومت پر زور دیں کہ وہ لیک ہونے والی ان کی آڈیو کی تحقیقات کروائے۔اس آڈیو میں جناب عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے درمیان ہونے والی گفتگو کے متعدد نکات جب تحقیقات کے دائرے میں آئیں گے تو بہت ساری باتوں اور دعوئوں کی حقیقت خودبخود کھل جائے گی۔ کالم لکھ چکا تھا کہ اطلاع ملی کہ وزیر اعظم ہائوس کے ریکارڈ میں سائفر کی وصولی تو درج ہے لیکن سائفر ریکارڈ میں موجود نہیں جس پر ایک خصوصی تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ