p613 112

مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی بھارتی سازش

مقبوضہ جموں وکشمیر کی کٹھ پتلی حکومت کا بیس اضلاع میں غیرمقامی شہریوں کو12لاکھ سے زائد ڈومیسائل کا اجراء فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آباد کاری جیسا اقدام ہے ، جس کا مقصد مسلم اکثریتی خطے کی آبادی کے تناسب کو بدل کر ہندو اکثریت اور مسلمانوں کو اقلیت میں بدلنا ہے۔ رپورٹس کے مطابق2لاکھ86ہزار ڈومیسائل کشمیر ڈویژن اور9لاکھ45ہزار ڈومیسائل جموں ڈویژن میں جاری کیے گئے ہیں۔خیال رہے کہ اس سے قبل بھی بھارت نے3لاکھ غیرمقامی باشندوں کو مقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے تھے جس میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں تھا۔سال رفتہ کی پانچ اگست کے دن وزیراعظم مودی نے بھارتی آئین کے ایسے آرٹیکلز کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے مطابق کشمیرکو جزوی خودمختار حیثیت حاصل تھی اور کشمیریوں کو حقوق حاصل تھے۔ بھارتی وزیراعظم کے اقدام کا مقصد ہی مسلمانوں کو محروم کرنا تھا جس کی منصوبہ بندی کے طور پر ریاست جموں وکشمیر کو دہلی کی مرکزی حکومت کے تحت وفاقی علاقہ قرار دیا گیا جبکہ لداخ خطے کو ایک علیحدہ انتظامی علاقہ قرار دیا گیا لیکن یہاں مودی کی چال اُلٹی پڑی اور اب چین اور بھارت کے درمیان لداخ پر کشیدگی بڑھ رہی ہے اور چین نے لداخ کے متنازعہ حصوں پر قبضہ کر کے فوج تعینات کردی ہے، بہرحال اس کے قطع نظر مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت بڑی منصوبہ بندی کیساتھ ہندو آبادکاری کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔بھارت کے کسی بھی حصے سے مخصوص لوگوں کو کشمیر کے ڈومیسائل کیلئے اہل گردان کر پندرہ سال سے کشمیر میں مقیم افراد، پاکستان سے جانے والے تقریباًاٹھائیس تیس ہزار مہاجرین اور سترہ لاکھ سے زائد دیگر ریاستوں سے آئے ہندو مزدوروں کو حقدار گردانا گیااور اب ان کو دھڑا دھڑ ڈومیسائل کا اجراء کرکے مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کی حیثیت دی جارہی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی سیلات کا جو دروازہ کھولا ہے اور کشمیری مسلمانوں کو جس طرح اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے اس کے بعد خطے میں مسلم آبادی کے مقابلے میں ہندوؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم اور بدترین تشدد لاک ڈاؤن کے اقدامات کا مقصد ہی کشمیری مسلمانوں کو ہجرت پر مجبور کرنا ہے تاکہ ان کے اونے پونے داموں بکنے والی جائیداد ہندو خرید سکیں۔ کشمیری مسلمانوں پر کاروبار اور روزگار کے دروازے بند کئے جارہے ہیں، ان کی فصلوں اور باغات تک کو تباہ کر کے ان کو معاشی طور پر مفلوج کیا جارہا ہے۔ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ دوسری جانب پاکستان کی کشمیر پالیسی میں تبدیلی اورمظلوم کشمیری بھائیوں کی مدد کرنے کے متمنی عناصر کو عضو معطل بنانے کے باعث مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے ۔ او آئی سی اور امت مسلمہ کا کردار وعمل زبانی کلامی حد تک ہی نرم ہے ایسے میں عملی طور پر کوئی سنجیدہ سفارتی سعی اور اقوام عالم کے سامنے کشمیریوں کا مقدمہ پیش کرنا اور منظم ہو کر ان کا مقدمہ پوری سفارتی طاقت سے لڑنے کی توقع ہی عبث ہے۔ یہ وجہ ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں آئے روز نت نئے اقدامات آزادانہ طور پر اُٹھا رہا ہے اور ان کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں، اُمت مسلمہ کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات کی روک تھام کیلئے دامے درمے قدمے سخنے ہر طرح سے کشمیری مسلمانوں کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ اُمت مسلمہ کی اجتماع ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کاخمیازہ ایک ایک کرکے سب کو کسی نہ کسی طرح بھگتنا ہوگا۔ قبل اس کے کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے میں کامیاب ہو، اُمت مسلمہ کو خواب غفلت سے جاگنا چاہئے اور ہر سطح پر بھارت کے اس اقدام کو ناکام بنانے کی بھرپور سعی کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات