مقام حیرت یا افسوس؟

ملک کے کسی بھی سرکاری ادارے میں بھرتی کرنے سے پہلے متعلقہ ملازمین کی چھن پھٹک کے حوالے سے تفتیش لازمی امر ہے اور جہاں سول ملازمین کی تقرری سے پہلے پولیس اور ان سے متعلق دیگر اداروں یعنی سی آئی ڈی ، انٹیلی جنس وغیرہ کے ذریعے بھرتی ہونے والوں کے بارے میں کلیئرنس کرانا ایک ضروری عمل ہے ، وہاں حساس اداروں میں ملازمت کے خواہش مندوں کے بارے میں انکوائری بھی انہی حساس اداروں کے اصول و ضوابط کے مطابق کرائی جاتی ہے ، تاکہ متعلقہ حساس ادارے کی اپنی سکیورٹی پر آئندہ کوئی سوال نہ اٹھ سکے ، مگر گزشتہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک حساس ادارے میں بھرتی ہونے والے دو افغان باشندوں کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے انہیں ادارے سے برطرف کرنے کی بات کی ہے اس پرحیرت کا اظہار کیا جائے یا پھر افسوس کا ، کہ پاکستان کے حساس ترین ادارے میں بھرتی ہونے والوں کی جانچ پرکھ کا پراسیس کیسے”شکست و ریخت” کا شکارہوا اور غیرملکی(افغان) باشندوں کو نہ صرف افسر رینک میں بھرتی ہونے سے روکا نہیں جا سکا ، بلکہ اس غلطی کا انکشاف دووران تربیت اور پھر مختلف جگہوں پرتقرری اور ترقی کے مدارج طے کرنے کے دوران بھی نہیں ہو سکا؟وزیردفاع نے بالکل درست کہا کہ پاک افغان سرحد کا کوئی تقدس ہی نہیں جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھائے چلا آتا ہے یہاں شناختی کارڈ بھی بنوا لیتا ہے ، وزیردفاع کے دعوے کے مطابق ایک اہلکار کے والد نے خط لکھ کر تسلیم کیا کہ وہ افغان باشندہ ہے ، وزیردفاع نے یہ بھی کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین پر مقیم ہیں جبکہ تین سے چارہزار کو سابق وزیر اعظم پاکستان واپس لے آئے تھے جہاں تک ان مبینہ دہشت گردوں کو پاکستان لانے کے حوالے سے الزامات کا تعلق ہے تو اس میں ایک سابقہ اعلیٰ افسر کے ملوث ہونے کے بارے میں بھی الزامات لگتے رہے ہیں ، ان الزامات کی حقیقت کیا ہے یہ تو مکمل چھان بین کی متقاضی ہیں ، اس لئے ہم اس ضمنی میں کسی رائے کے اظہار سے گریز کرتے ہوئے اتنا ضروری کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور ان کی حقیقت کے بارے میں متعلقہ حساس ادارے ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں ، تاہم درپیش معاملے کے بعض پہلوئوں پرچند گزارشات نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ جن دو افسروںکی بھرتی سے لے کر ان کے نکالے جانے تک کے دوران خود حساس ادارے کے اندر (بھرتی سے پہلے ہی) ان کے بارے میں انکوائری کیسے ناکامی سے دو چار ہوئی ، اورہ وہ کون لوگ تھے جو ان کی بھرتی کے پراسیس میں بطور(ضمانت) ان کی تصدیق کے ذمہ دار تھے ، اور متعلقہ معلومات حاصل نہ کی جا سکیں، اور پھربھرتی ہونے ، مختلف یونٹس میں کام کرنے اورمقررہ مدت کے دوران ترقی کے پراسیس سے گزرتے ہوئے اگلے عہدوں تک پہنچے میں بھی چند سال تو گزر ہی جاتے ہیں اس دوران یقینا کہیں نہ کہیں تو ان کی اصلیت کے بارے میں شکوک و شبہات نے جنم لیا ہی ہو گا تبھی تو ان کی برطرف عمل میں آسکی ہے تاہم اس مدت کے دوران جن جن یونٹس میں انہوں نے خدمات انجام دیں ، کیا اس دوران حساس معلومات ان کے ہاتھ نہ لگی ہوں گی؟ اور یہی وہ قابل افسوس صورتحال ہے جس پر غور ضرور کرنا چاہئے کیونکہ اب جب کہ ان کو برطرف کردیا گیا ہے تو جب یہ واپس اپنے وطن جائیں گے تو پاکستان دشمن قوتیں انہیں ترغیب دے کر ان کی معلومات سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے ؟ ایک اورسوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو دو افسروںکی بات تھی ، کیا نچلی سطح کے مناصب پر بھی افغان باشندوں کی بھرتی کیا ممکن نہیں ہے ، کیونکہ جو لوگ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ بنوا کر زندگی کے دیگر شعبوں میں آگے آنے میں کامیاب ہو چکے ہوں ، اور تجارت، کاروبار وغیرہ وغیرہ میں اجارہ داری قائم کر چکے ہوں ان سے کسی بھی قسم کی توقع کی جا سکتی ہے ، ملک میں اس وقت بھی لاکھوںافغان شہری نہ صرف قانونی بلکہ غیر قانونی طور پر بھی مقیم ہیں اور اقوام متحدہ سے پرمٹ حاصل کرکے واپسی کا انتظار کر رہے ہیں بلکہ جعلی دستاویزات کے ذریعے نہ صرف یہاں رہ رہے ہیں بلکہ پاکستان کولانچنگ پیڈ بنا کر پاکستانی پاسپورٹ پردنیا کے مختلف ممالک میں اپنی غلط حرکتوں کی وجہ سے پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اس کے باوجود افغانستان کی طالبان انتظامیہ ان کویہاں مزید قیام کی اجازت دینے کے حوالے سے بیان بازی کر رہی ہے ، جو عالمی قوانین کے خلاف ہے اس لئے اب جبکہ افغان باشندوں کی واپسی کاایک اور مرحلہ اپریل میں شروع ہونے والا ہے تو غیر قانونی افغان باشندوں کو مزید مہلت دیئے بغیر اپنے وطن کی رہ دکھانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں