مملکت خداداد کے 75 سال

ہماری آزادی کو آج75سال پورے ہوگئے۔ حسب روایت ہم ہر سال اپنی آزادی کا جشن مناتے ہیں۔ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات کو دارالحکومت اسلام آباد کی سڑکوں پر چند کھلنڈرے اور بگڑے ہوئے امیر زادے گاڑیوں سے سائلنسر نکال کر بے ہنگم ہارنوں کے ساتھ وہ طوفان بد تمیزی برپا کرلیتے ہیں جس سے کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔اسی رات کو سرکاری عمارتوں پر چراغاں کرکے حکومتی سطح پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے گویا ہم ایک زندہ قوم ہیں ۔ صبح ہوتے ہی حکومتی وزراء اور اہلکاروں کی جانب سے جشن آزادی کی مناسبت سے بیانات داغ دیئے جاتے ہیں ۔ سرکاری دفاتر میں پرچم کشائی کی تقریبات کے علاوہ ملک کے بڑے بڑے ہوٹلوں میں مختلف تقریبات کے موقع پر پرتعیش کھانوں کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ لیکن چودہ اگست کو سورج غروب ہونے کے ساتھ ہی یہ سارے جذبے ماند پڑ جاتے ہیں اور عوام پھر سے بے بسی کی تصویر بنے اپنی تلخ راتوں کو اس امید کے ساتھ صبح کرنا شروع کردیتے ہیں کہ شاید کسی دن انکی تقدیر اچانک بدل جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بندہ مزدور کے اوقات تلخ سے تلخ تر ہوتے جارہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ ہم کس چیز کا جشن مناتے ہیں، اپنی سیاسی آزادی کا، معاشی آزادی کا، سماجی آزادی کا، اپنی تہذیب اور ثقافت کی آزادی کایا اس مذہبی آزادی کا جس کے نام پر ہم نے اس ملک کو قائم کیا تھا۔ اگر ہم پچھلے 75 سالہ سیاسی تاریخ کا ایک سرسری جائیزہ لے لیں تو معلوم ہوگا کہ آج ہم سیاسی اور معاشی طورپر بین الاقوامی برادری میں کہاں کھڑے ہیں؟ ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ہماری منزل کیاہے اورکیا ہم نے اس منزل تک پہنچنے کے لئے اپنی سمت کا درست بھی تعین کیا ہے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ آج بین الاقوامی برادری میں ہماری پہچان اس کاسہ لیس بھکاری ملک کی سی ہے جو ہر وقت اپنا کاسہ لئے خیرات مانگتا رہتا ہے۔ اوریہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جو ہمیں پیسہ دے گا وہ ہمارے سیاہ وسفید کا مالک بن کر رہے گا۔ وہی ہماری سیاسی پالیسیا ں ترتیب دیگا اور وہ ہی ہمارے سیاسی سمت کا تعین کریگا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری معاشی پالیسیاں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بن کر آتی ہیں۔یہی مالیاتی ادارے ہمیں بتائینگی کہ ہم اپنے بجٹ کا کتنا حصہ کہاں خرچ کرینگے۔ ہمیں ٹیکس کی مد میں کتنی وصولیاں کرنی ہیں۔ ہمارے بجلی، گیس اور پیٹرول کے نرخ کیا ہونے چاہئیں۔ ہمارے یہی آقا پھر اقوام متحدہ جیسے اداروں کے ذریعے اپنے فیصلے ہم پر مسلط کردیتے ہیں۔ یہی ممالک پھر ہمیں ایف اے ٹی ایف جیسے ادروں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں کے بھنور میں پھنساکر اپنی پسند کے مطالبات ہم سے منظور کرا دیتے ہیں اور ہم بے بسی کی تصویر بنے انہی ممالک کے رحم و کرم پر زندگی کے سانس گن رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا ایک ٹیلیفون کال ہمارے لئے لائف لائن ہوتا ہے اور ہم بڑی بے صبری سے اپنے آقا کی ایک ٹیلی فون کال سننے کے لئے بے تاب رہتے ہیں۔کیا یہی ہماری سیاسی اور معاشی آزادی ہے جس کا ہم جشن منارہے ہیں؟ہم ثقافتی طور پر بھی غلام ہیں۔ مغربی تہذیب کی دلداداہ ہماری نئی نسل مغرب کی نقالی میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ اسے اپنی اسلامی روایات فرسودہ لگنے لگی ہیں۔ان کے اٹھک بیٹھک،کھانے پینے اورلبا س میں بھی مغربی رنگ غالب ہوتا ہے۔ہمارے بچوں کی سوچ، زبان ، اور حتیٰ کہ لہجے میں بھی بھارتی فلموں کے رنگ جھلکتے ہیں۔ ہم مغرب کی اندھی تقلید اور نقالی میں اپنے روایتی اقدار ،ثقافت اور حتی کہ مذہبی تہذیب کو بھی بھول بیٹھے ہیں۔ ہماری عدالتیں کتنی آزاد ہیں؟ ہماری عدالتوں میں انصاف بکتا ہے۔کورٹ اور کچہریاں بدعنوانی کے بد ترین اڈے بن چکے ہیں۔ ایک سفید پوش انسان کو وکیلوں کے اطوار دیکھ کر گھٹن کا احساس ہوتا ہے جہاں وکیل اور اس کے منشی کی ہر بات کی قیمت مقرر ہے۔ہمارے سابق وزیراعظم کئی بار برملا اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ ہمارے ملک میں انصاف کے دو معیار ہیں، غریب کے لئے الگ اور امیر کے لئے الگ۔ہم کس آزادی کا جشن مناتے ہیں۔اس سیاسی آزادی کا جو چند محدود سیاسی گھرانوں کے اندر محبوس و مقید ہے یا اس معاشی آزادی کاجو ایک استحصالی ٹولے کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کیا ہم اس عدالتی آزادی کا جشن منا تے ہیں جہاں انصاف عدالت کے کٹہرے میں سچ بول کر نہیں بلکہ چند ٹکوں کے عوض خریدی جاتی ہے یااس ثقافتی آزادی کا جشن مناتے ہیں جو مغربی تہذیب اور ثقافت کی اندھی تقلید کی صورت میں ہماری روایات اور مذہبی تشخص کی جڑیں کاٹ رہی ہیں۔مشہور مسلم مفکر خلیل جبران کا قول ہے کہ اگر کوئی غلام خواب دیکھ رہا ہو تو اسے مت جگاو شاید وہ آزادی کا خواب دیکھ رہاہولیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس غلام کو جھنجوڑ کر جگایا جائے اور اسے بتایا جائے کہ حقیقی آزادی کا مطلب کیا ہے؟ ۔

مزید پڑھیں:  اہم منصوبے پرکام کی بندش