ممکن ہے سرکار مدد کے لئے آئے

موضوعات کی بھر مار ہے سمجھ میں نہیں آتا کونسے موضوع کو چھیڑا جائے اب ہم یہ بھی تو نہیں کہہ سکتے کہ
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
بیزاری کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ جو محاورہ ہے کہ گھوڑا گھاس کے ساتھ دوستی کریگا تو کھائے گا کیا؟ اس لئے کہ کالم نگار کو تو موضوع ہی کی تلاش ہوتی ہے ‘ اورجب ایک سے زیادہ موضوعات سامنے ہوں تو البتہ وہ ان متنوع موضوعات سے تھوڑا پریشان ضرور ہو جاتا ہے اب یہی دیکھ لیجئے کہ جہاں واٹر گیٹ سکینڈل کی یاد آتی ہے وہاں ملتان کے ایک سیاسی رہنماء حاجی محمد بوٹا مرحوم کا واقعہ یاد آرہا ہے جو اپنے قیام ملتان کے زمانے میں ہمارے ریڈیو پاکستان کے دوستوںنے سنایا تھا ‘ ادھر حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے حوالے سے بھی لاتعداد خبریں میڈیا پر چھائی ہوئی ہیں اور خاص طور پر گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دورہ سوات کے موقع پرجو کچھ کہا ہے اس کی اہمیت پر بھی ہمیں غور و فکر کی ضرورت ہے جبکہ سیلاب زدگان کے حوالے سے اقوام متحدہ سے لیکر ملکی سطح پر اکٹھے کئے جانے والے فنڈز کی تفصیلات اور اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ بھی قابل افسوس کے زمرے میں آتی ہے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون اس مصیبت کی گھڑی میں بھی بیرون ملک بیٹھ کر جو مخالفانہ مہم چلا رہی ہیں اس سے یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ باہر سے ملنے والی امداد متاثرین تک پہنچنے کی بجائے ”خورد برد” ہونے کا اندیشہ ہے یوں وہ ستم رسیدہ افراد کے خلاف جوبیانیہ بنا رہی ہیں اس کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اس پر ضرور سوچنا چاہئے ‘ اس سے پہلے اسی جماعت کی ایک خاتون رہنما کی وہ ویڈیو بھی وائرل ہو چکی ہے جوحال ہی میں محولہ جماعت کے ایک جلسے میں ان کی تقریر پر مبین ہے اور جس میں موصوفہ نے بھی اسی بات پر زور دیا کہ موجودہ حکومت کے سیلاب زدگان فنڈز میں کوئی بھی عطیات جمع نہ کرائے اب سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ جب وزیراعظم ریلیف فنڈ میں آنے والی رقم کے ایک ایک پیسے کا حساب رکھا جارہا ہے تو اس کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے ‘ حالانکہ خود ان کی جماعت کے سربراہ نے بھی میڈیا پر بیٹھ کر دنیا بھر سے امداد اکٹھی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مبینہ طور پر ایک بھاری رقم اکٹھا کرنے کے دعوے کئے ہیں جس کے بارے میں یہ اطلاعات آرہی ہے کہ یہ سارا”مبینہ ” ڈرامہ تھا اوربینک میں جمع ہونے والی رقم اتنی نہیں البتہ جتنی رقم کے دعوئے کئے جارہے ہیں اس کے صرف وعدے ہی وعدے ہیں گویا بقول مرزا غالب
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا؟
خیر جانے دیں ‘ قوم پر پڑنے والی اس افتاد کے موقع پر”فکر ہر کس بہ قدر ہمت اوست” کے تحت جس کا جتنا ظرف ہے اسی قدر وہ مثبت یا منفی رویہ اختیار کر رہا ہے اور بہتر ہے کہ واٹر گیٹ سکینکڈل کا ذکر اگلے کسی کالم پر اٹھا رکھتے ہوئے ملتان کے مرحوم حاجی بوٹا کی بات کر لیتے ہیں مگر اس کی وجہ تسمیہ بھی بتانا ضروری ہے کہ وہ میں کیوں یاد آگئے جو کچھ یوں ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے ایک شخص کی ہیلی کاپٹر میں بیٹھے ہوئے ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ ہاتھ ہلا ہلا کر چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور وہ کچھ یوں تاثر دے رہے ہیں جیسے سیلاب زدگان نیچے زمین پر بیٹھ کر ان کی آمد پر ”بے انتہا” خوشی کا اظہار کر رہے ہوں حالانکہ زمین زادوں کومعلوم ہی نہیں ہوگا کہ ان کا کوئی حکمران ان کے غم میں کس قدر”دبلا” ہو رہا ہے ذکر حاجی بوٹا رہ نہ جائے سو اسی جانب چلتے ہیں اور جیسا کہ ہمیں ہمارے ریڈیو پاکستان کے دوستوں نے بتایا تھا کہ حاجی محمد بوٹا مرحوم جس زمانے میں ملتان کے میئر تھے توان پر کرپشن کے بے پناہ الزامات لگے تھے ایک بار ان کے کسی فیصلے پر ملتان کے شہریوں میں غم و غصہ پیدا ہوا اور انہوں نے جلوس نکال کر میونسپل کارپوریشن کے دفتر کے سامنے آکر مخالفانہ مظاہرہ کرتے ہوئے نعرے لگانے شروع کئے جو کچھ یوں تھے کہ ”ملتان کو کس نے لوٹا۔۔حاجی بوٹا ‘ حاجی بوٹا”۔ دوسری جانب حاجی بوٹا صاحب اپنے شیشہ بند دفتر میں یہ نظارہ کرتے ہوئے مظاہرین کے نعروں کے جواب میں(جو انہیں سنائی نہیں دے رہے تھے بس”حاجی بوٹا ‘حاجی بوٹا” ہی ان کی سمجھ میں آرہا تھا اور وہ سمجھے کہ لوگ ان کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں جوابی طور پرمسکرا مسکرا کر ہاتھ ہلا ہلا کر خوش ہو رہے تھے ‘ سو گزشتہ روز جو حاکم ہیلی کاپٹرمیں بیٹھ کر نیچے سیلاب زدگان کو دیکھ کر کسی ہدایت کار کی ہدایات کے مطابق ہاتھ ہلا ہلا کر ”جواب” دے رہے تھے ان کا بھی حاجی بوٹا والا حال تھا اور وہ نیچے زمین پر موجود بے خبر سیلاب زدگان کو یہ تاثر دے رہے تھے کہ جیسے وہ ان کی آمد پر خوش ہو رہے ہیں تو موصوف کو بھی اس سے خوشی ہو رہی ہے ‘ حالانکہ اس سے ایک روز پہلے جس طرح ایک اور مقام پر ان کی ٹیم کی پذیرائی کی گئی وہ بھی وائرل ہو چکی ہے سیلاب کی صورتحال کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹراسحاق وردگ اپنا تازہ کلام ہمیں ارسال کرکے اسے کالم کا حصہ بنانے کی جو فرمائش کی ہے اس میں سے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے ۔
اثبات کی کرتے ہیں نفی ڈوبنے والے
جب آنکھ کودے جائیں نمی ڈوبنے والے
دل ڈوبنے لگتا ہے ابھرتی ہیں صدائیں
خوابوں میں اگر آئیں وہی ڈوبنے والے
ممکن ہے کہ سرکار مدد کے لئے آئے
امید میں ڈوبے ہیں سبھی ڈوبنے والے
اب یاد کی بارش میں ابھرتے ہیں سرشام
اشکوں کے سمندر میں سبھی ڈوبنے والے

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟