موسم برسات کی شجرکاری کا وقت

جس قسم کی گرمی پڑ رہی ہے اور موسمی حدت میں ہرسال اضافہ کے حوالے سے ماہرین جن آراء کا اظہارکر رہے ہیں ان سے پوری طرح نمٹنا شاید کسی بھی ملک و قوم کے بس کی بات نہیں البتہ ماہرین زیادہ سے زیادہ شجر کاری کا مشورہ ضرور دیتے ہیں ساتھ ہی آلودگی اور حدت میں اضافہ کرنے والے عوامل کی بجائے متبادل کی تجویز پیش کرتے ہیں موسمیاتی تبدیلی سے جڑی چیزوں کو گننا شروع کریں توکئی چیزیں سامنے آتی ہیں جس میں سرفہرست عالمی حدت میں اضافہ شدید خشک سالی ‘ غذائی قلت اور بھوک ہی بھوک کا بار بار تذکرہ ہوتا ہے اگر صرف یہی مسائل ہوں تب بھی اندازہ کیجئے کہ دنیا کی آبادی کس قسم کے سنگین مسائل کا شکار ہونے جارہی ہے لیکن یہ تو معدودے چند ہیں حقیقت میں مسائل کہیں زیادہ ہیں جس میں شدید اور بار بار کے موسمی آفات کا سامنا ہونا سطح سمندر کی بلندی اور سیلاب کی تباہ کاریاں زرعی پیدوار میں بے یقینی صاف پانی تک رسائی میں کمی جنگلات میں بار بار اور آتشزدگی کے بڑھتے واقعات بڑی تعداد میں دربدری جسمانی اور ذہنی صحت کا متاثر ہونا قدرتی وسائل پر لڑائیاں اور کشیدگی بنیادی اساس کی تباہی گرمی سے اموات کیڑے مکوڑوں کی بہتات اور شدید و بے وقت کی بارشیں شامل ہیں ان سب کے خلاف اگر مضبوط اور موثر ڈھال مطلوب ہے تو زیادہ سے زیادہ شجر کاری اس کا بہترین اور منافع بخش نسخہ ہے ۔ شجرکاری کا یہی موسم ہے گرمیوں میں شجرکاری جولائی اور اگست میں کی جاتی ہے یہی دو ماہ ساون کے پودے لگانا مفید ہے لیکن روایتی اور مقامی درخت لگانے کے لئے کیکر ‘ ببول ‘ بکائن ‘ نیم اور اس قسم کے دیگر پودے جو ہمارے موسم سے زیادہ ہم آہنگ ہوں ان کے پودے لگانے پر زیادہ توجہ دی جائے تو مناسب ہوگا دردھیک یعنی بکائن ہمارے ہاں قدیمی بوٹا ہے جس کی نشوونما بھی جلدی ہوتی ہے اور اس کی چھائوں بھی گھنی ہوتی ہے اگر اس کے سوکھ کر نیچے گرے ہوئے بیج اٹھا کر بو دیئے جائیں تو باآسانی پودے نکل آتے ہیں نیم بکائیں اور درھیک ایک ہی نسل کے ہیں نیم کی درخت کے بھی پیلے بیج با آسانی بکھیر کر شجرکاری ہو سکتی ہے جو تجویز میںنے پیش کی یہ اس موسم میں تو نہیں ہوسکتے مگر توجہ ہو تو اگلی شجرکاری کے موسم کی اچھی تیاری ضرور ہوسکتی ہے ۔ غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں کہ حالات کا تقاضا ہے کہ جتنا ہوسکے ہنگامی بنیادوں پر شجرکاری ہونی چاہئے اگر کہا جائے کہ درخت لگانا اب ہمارے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ ایک بار پھر اس امر کی طرف توجہ مطلوب ہے کہ درخت مقامی ہوں غیر ملکی ہر گز نہ ہوں نیز محکمہ جنگلات کی جانب سے جن درختوں کو علاقائی و موسمی بنیادوں پر سفارش کی گئی ہو اس کے مطابق کام کیا جائے قدرت نے ہمیں جو درخت قدیم الایام سے ودیعت کر رکھی ہے یہی درخت ہمارے لئے بہتر اور مفید ثابت ہو سکتے ہیں شہتوت اور درھیک دو ایسے درخت بتائے جاتے ہیں جو زیادہ بہتر ثابت ہو سکتے ہیں تعلیمی اداروں میں مہم چلائی جائے اور عوام کو ہر سطح پر شجرکاری پر آمادہ کیا جائے تو اس کے مزید اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اگر ملک کا ہر بچہ جواں بوڑھا صرف ایک سیزن میں پانچ درخت بھی لگائے تو ایک سیزن میں ایک ارب سے زیادہ درخت لگائے جا سکتے ہیں یہ تو ایک مثالی صورتحال ہو گی لیکن اس کے لئے شاید شہروں میں اراضی موجود نہ ہو ہر شہری ایک پودا بھی لگائے تو 25 کروڑ سے زائد پودے ایک موسم میں لگ سکتے ہیں شہروں اور قصبات میں جہاں زمین دستیاب نہ ہوتو گھر کی چھت پر کسی خالی ڈبے ڈرم وغیرہ میں چند بوٹے لگانا مشکل نہیں دیہات میں پودے لگاکر ان کی حفاظت کرکے تناور درخت بننے دیا جائے تو اضافی آمدن بھی ہوگی گھنے درختوں کی چھائوں بھی میسر آئے گی اور گرمی و موسمی تغیرات کا مقابلہ بھی ممکن ہو گا جب تک پورا ملک سرسبز و شاداب نہیں ہوتا جب تک ہر طرف ہریالی اور شادابی نہیں ہوتی جب تک ارض پاکستان سرسبز اور چھائوں چھائوں نہیں ہوتا تب تک ہر راستے ہر گلی ہر گھر کے سامنے ہر کھلی جگہ پر ریلوے ٹریک پر قطار در قطار پودے لگانے کا سلسلہ چلتے رہنا چاہئے موٹر وے کے دونوں کناروں پر تو ملک بھرمیں مناسب فاصلے پر گھنے اور شجرسایہ دار لگیں تو مقصد کے حصول میں سنجیدہ پیش رفت ہو سکتی ہے ہمیں اس تشویشناک صورتحال کا مزید تاخیر کئے بغیر ادراک و احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان کی سرزمین خشک ہوتی جارہی ہے بجائے اس کے کہ شجرکاری ہو اور قدرتی جنگلات کا تحفظ کیا جائے الٹا جنگلات کی کٹائی اور زرعی اراضی و باغات و سبزے پرکنکریٹ کے جنگل تیزی سے لگ رہے ہیں جس کے ساتھ ہی زیر زمین پانی کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے اور واٹر لیول پست سے پست ہونے سے زمینی توازن ہی بگڑنے کا خدشہ ہے جو الگ سے تباہی کا موجب بن سکتا ہے حالات کا تقاضا ہے کہ اس موسم میں ایسے درخت لگانے میں ہر کسی کو اپنا حصہ ادا کرنا چاہئے ایسے درختوں کو ترجیح دی جائے جو خوبصورت اور جلدی بڑھنے والے ہوں مثلاً کچنار ‘ جیکرانڈ ‘ املتاس ‘ گل مہر ‘ بوہڑ ‘ پیپل ٹالی سوہا نجار سوڑا سفیدے وغیرہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے غیر ملکی درخت بھی لگانے میں حرج نہیں جو جلدی بڑھیں اور ماحول میں تبدیلی لانے کا باعث ہوں ساتھ ہی ساتھ اس امر پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں مقامی درخت ختم کیوں ہوتے جارہے ہیں ایسے درخت جو شہد کی مکھی کی افزائش کے لئے مناسب ہوں جیسے بیر وغیرہ نیز یہ پرندوں کے لئے بھی کشش کا باعث ہوں پرندوں ‘ تتلیوں ‘ جگنوئوں اور دیگر ماحول دوست مخلوق کوماحول میسر ہو اور ایسے پرندوں اورمخلوق کی حفاظت کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہماری دنیا کی رعنائی و خوبصورتی باقی رہنے کا بھی اہتمام ہو۔ کافی عرصہ قبل میں نے ایک پرندے کی وڈیو دیکھی تھی جوجنگلات کا رقبہ بڑھانے کا قدرتی و فطری فریضہ چونچ میں بیج لے جا کر خالی جگہوں پربونے کا فریضہ بحسن و خوبی انجام دے رہا ہوتا ہے یہ جو قطار درقطار اور دیودار و شاہ بلوط کے گھنے جنگلات ہیں اس کے لگانے میں اس مخصوص پرندے کا سب سے بڑا کردار ہے ساتھ ہی پرندے بیج کھا کر اور چونچ میں لے کر اڑ کر گرا کر اور مختلف طریقوں سے شجرکاری کا قدرتی فریضہ نبھا رہے ہوتے ہیں اگر کسی جانب سے غفلت ہو رہی ہے تو وہ ہم انسانوں کی طرف سے شجرکاری تو درکنار الٹا یہ مخلوق جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور ٹمبر مافیا بنی ہوئی ہے جو جنگلات کو نذر آتش کرکے درختوں کی کٹائی کے نشانات مٹانے کا جرم بھی کرتی ہے بدقسمتی سے محکمہ جنگلات کے حکام و ملازمین بھی یا تواس جرم میں ملوث ہوتے ہیں یا پھر بے بس یاد رکھنا چاہئے کہ آج ہم جو کچھ بو رہے ہیں وہ ہم اپنی زندگی میں کاٹیں گے بھی ہمارے بچوں کا تو متاثر ہونا بھی فطری امر ہوگا گرمی و برسات کے یہ دن پکار پکار کر شجرکاری کی دعوت دے رہے ہیں برسات کی رم جھم اور جل تھل کو ضائع مت کیجئے اپنے حصے کے دو چار پودے ضرور لگائیں اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے پودے ضرور لگائیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے