ناکامی کا ٹوکرا، ذمہ دار کون؟

سیاسی جماعتوں نے باہمی اتحاد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے باہر کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ بڑھتی مہنگائی اور معاشی چیلنجز پر قابو پانا عمران خان کے بس کی بات نہیں ہے، پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت چونکہ مہنگائی کے باعث پریشان تھے اس لئے انہوں نے اتحادی جماعتوں کی تائید کی، پاکستان کے مقتدر حلقے بھی نیوٹرل ہو گئے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی اور اتحادی جماعتوں نے طے شدہ فارمولے کے مطابق اقتدار کی بندر بانٹ کر لی تو عوام کو توقع تھی کہ مہنگائی میں نمایاں کمی واقع ہو گئی اور معیشت میں بھی بہتری آئی گی، مگر اب جو صورتحال ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے، مسائل پہلے سے بڑھ چکے ہیں، ڈالر کی قیمت میں جو معمولی سی اور وقتی کمی آئی تھی اب ڈالر اپنی حد عبور کر چکا ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان کو ان کی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہٹانے کا فیصلہ غلط تھا۔
مسلم لیگ ن کو اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا ہے کہ عجلت بازی میں غلط فیصلہ ہو گیا ہے، حالانکہ مسلم لیگ ن ہی وہ جماعت ہے جو تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے میں پیش پیش تھی۔ مریم نواز آج جلسوں میں یہ بات تسلیم کر رہی ہیں کہ عمران خان کی ناکامی کا ٹوکرا وہ اپنے کندھوں پر کیوں اٹھائیں؟ اگر محض چند دنوں میں ہی معاملات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں تو پھر قوم کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ ہوم ورک نا مکمل ہونے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت کو کیوں ختم کر دیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو مدت پوری کرنے سے پہلے ہٹائے جانے کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت تفریق کا شکار رہی ہے، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف سمیت تقریباً آدھی لیگی قیادت چاہتی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومتی جیسی بھی ہے اسے مدت پوری کرنی دی جائے۔
آج جو جماعتیں مخلوط حکومت کا حصہ ہیں یہ ملک و قوم کی خیر خواہ ہوتیں تو ہوش مندی سے کام لیتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتیں مگر اپنی انا کی خاطر بائیس کروڑ عوام پر مشکلات کا پہاڑ لاد دیا گیا۔ یہ بات اب کوئی راز نہیں رہی ہے بغض عمران میں عوام کو تختہ مشق بنایا گیا ہے۔ اتحادی جماعتوں کا پہلے یہ مطالبہ تھا کہ عمران خان کو اقتدار سے ہٹا کر نئے الیکشن کرائے جائیں، لیکن جب تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے قوی آثار پیدا ہو گئے تو اتحادی جماعتوں کی طرف سے فوری طور پر یہ مطالبہ سامنے آ گیا کہ وہ مخلوط حکومت قائم کریں گی اور اپنے اس مؤقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں، الیکشن کرانے کا مطالبہ تسلیم کر لیا جاتا تو ملک میں کبھی بھی آئینی بحران نہ ہوتا ہے اور رات کے وقت عدالتیں کھلنے کے جو واقعات سامنے آئے اس کی نوبت نہ آتی۔
درجن بھر جماعتوں کی حمایت سے کیسی حکومت قائم ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگایا جانا مشکل نہ تھا مگر تمام تر تحفظات کے باوجود پورے آب و تاب کے ساتھ مخلوط حکومت قائم ہو جاتی ہے۔ اب شنید ہے کہ مسلم لیگ ن نئے انتخابات چاہتی ہے تاہم آصف علی زرداری آئینی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں، وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیںکہ ایک سال میں معاشی حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان تحریک عدم اعتماد پیش کرتے ہوئے جو معاہدہ ہوا ہے اسے مدنظر رکھا جائے تو مسلم لیگ ن معاہدے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنے والے وقت میں جیسے بھی حالات آتے ہیں حکومت چلتی رہے گی۔ اس صورتحال کے ممکنہ طور پر دو نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ پاکستان پیپلزپارٹی عام انتخابات میں معاشی چیلنجز کا سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ وزارت عظمیٰ، وزیر خزانہ اور اہم وزارتیں مسلم لیگ ن کے پاس ہیں تو معاشی ابتری کا ذمہ دار بھی انہی کو ٹھہرایا جائے گا۔ یوں دیکھا جائے تو آصف زرداری نے نہایت مہارت سے سیاسی کارڈ کھیل دیا ہے، مسلم لیگ ن کی قیادت جسے سمجھنے سے قاصر رہی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ نواز شریف لندن میں لیگی قیادت کو بلا کر بڑا اعلان کرنا چاہتے تھے مگر عین اسی وقت آصف زرداری نے پریس کانفرنس کر کے نواز شریف کو پیغام دیا کہ وہ حکومت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، یوں آصف زرداری کی پریس کانفرنس کے بعد متوقع اعلان سامنے نہ آ سکا۔
عمران خان 20 مئی کو اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کر چکے ہیں، تحریک انصاف کیلئے یہ مارچ بہت اہمیت کا حامل ہو گا اس لئے بڑے مجمع کی توقع کی جا رہی ہے، یہ لوگ اگر چند روز تک اسلام آباد میں دھرنا دے دیتے ہیں تو حکومت کیلئے بجٹ پیش کرنا مشکل ہو جائے گا۔اتحادی جماعتیں یہ بات بھول رہی ہیں کہ بھلے امریکہ مخالف عمران خان کا بیانیہ عوام میں پذیرائی حاصل کرے یا نہ کرے تاہم معاشی چیلنجز پر قابو نہ پایا گیا تو عوام تحریک انصاف کی ناقص کارکردگی کو بھول کر موجودہ حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے۔ اس پس منظر کے بعد ایک ہی راستہ ہے جس میں سب کی خیر دکھائی دیتی ہے کہ بجٹ سے پہلے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے کیونکہ اس صورت میں سارا ملبہ موجودہ حکومت پر نہیں ڈالا جا سکے گا۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟