نریندرمودی کا ہندو توا والا بھارت

موضوعات اور بھی ہیں ایک دو نہیں پورے نصف درجن ان میں اہم ترین موضوع امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ مخالف رائے رکھنے والے دانشور نوم چومسکی کا حالیہ بیان بھی شامل ہے اس بیان کے دو حصے ہیں پہلا ہمارے ہاں کی سیاسی صورتحال اور جناب عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیہ سے متعلق ہے اور دوسرے حصے میں انہوں نے بھارت کی مودی سرکار کو آئینہ دکھایا ہے نوم چومسکی کہتے ہیں”بھارت کرتار پور امن راہداری کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کی بجائے اپنے ہاں اقلیتوں سے ہونے والے ناروا سلوک کا نوٹس لے اور اقلیتوں کی نسل کشی کا سلسلہ بند کروائے”نوم چومسکی پہلے شخص نہیں جنہوں نے مودی سرکار کو آئینہ دکھایا ہو لیکن نریندر مودی جس شخص کا نام ہے وہ بھارت کی غیرہندو مذہبی برادریوں کے خون سے ہولی کھیلنے کو مقصد زندگی سمجھتا ہے خیر اس پر پھر کبھی تفصیل کے ساتھ عرض کریں گے کہ کیسے گجرات کا قصائی نفرتوں کی تجارت کرتا دوبار ہندوستان کا وزیراعظم بنا فی الوقت تویہ ہے کہ آجکل ایک بار پھر مودی سرکار کو کرتار پور امن راہداری کے خلاف پروپیگنڈے کا دورہ پڑا ہوا ہے غالبا اسی لئے دفتر خارجہ نے کرتارپور راہداری کو کاروباری ملاقاتوں کے لئے استعمال کرنے کے بھارتی پروپیگنڈہ کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت کے اس مذموم پروپیگنڈے کا مقصد کرتارپور راہداری کھولنے کے تاریخی اقدام کو نقصان پہنچانا ہے، دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کرتارپور راہداری کے خلاف بے بنیاد بھارتی پروپیگنڈے کا مقصد بھارت کی داخلی صورتحال اور بالخصوص اقلیتوں کے خلاف جاری ہندو انتہا پسند تنظیموں کی متشددانہ کارروائیوں کی پردہ پوشی ہے، کرتارپور راہداری کے حوالے سے بھارتی الزامات کا منہ توڑ جواب بجاطور پر درست ہے، مذہبی ہم آہنگی اور تاریخی اہمیت کے مقام کو اپنے مذموم پروپیگنڈے کا نشانہ بنا کر مودی سرکار نے اپنی حکومت کے ان گھنائونے جرائم کی پردہ پوشی کی کوشش کی جن کی وجہ سے عظیم جمہوریہ کہلانے والی ریاست کے نظام اور پالیسیوں پر دنیا بھر میں سوالات اٹھائے جارہے ہیں، کرتارپور ، برصغیر پاک وہند میں آباد ایک بڑی مذہبی برادری سکھوں کے لئے مقدس مقام کا درجہ رکھتا ہے آزادی کے بعد مشرقی پنجاب سمیت بھارت بھر میں آباد سکھ برادری کو اپنے مذہبی مقام پر حاضری دینے کے لئے پچھلے پچھتر سالوں سے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا رہا تھا پاکستان نے بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے کرتارپور امن راہداری تعمیر کرکے سکھ برادری کے لئے سہولت فراہم کی سکھ مذہب اور تاریخی اہمیت کے حامل اس مقدس مقام پر تعمیر نو اور جدید سہولتوں کی فراہمی کے پیچھے انسان دوستی، امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کا جذبہ کارفرما تھا، حالیہ عرصہ کے دوران بھارت کے طول وعرض اور بالخصوص دہلی میں مسلمان اقلیت کے ساتھ آر ایس ایس اور دوسری انتہا پسند ہندو تنظیموں نے جو برتائو کیا اس سے ایک بار پھر عالمی برادری پر ہندو فاشزم کی کوکھ سے جنم لینے والی دہشت گردی عیاں ہوگئی، اس دوران بھارت کے تین مقامات پر نچلی ذات کے ہندوئوں کے ساتھ برہمن جاتی کے زور آور غنڈوں کے انسانیت سوز سلوک کی خبروں نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو متوجہ کیا یہ صورتحال مودی حکومت کے لئے تشویشناک تھی۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ بھارتی حکومت نے برطانوی وزیراعظم کے دورہ بھارت کے موقع کرتارپور امن راہداری کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے کا سہارا اس لئے لیا کہ برطانیہ بھی ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اپنے ہاں مقیم سکھوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت کرتے ہوئے بھارت سے کرتارپور امن راہداری کے حوالے سے ماضی میں مذہبی ہم آہنگی اور انسانی حقوق کے احترام کی اپیل کی تھی، عین اس وقت جب برطانوی وزیراعظم بھارت کے دورہ پر ہیں مودی سرکار نے امن راہداری کو تجارتی ملاقاتوں کا ذریعہ قرار دے کر نہ صرف حقائق کو مسخ کیا ہے بلکہ کہ خطے میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کی کوششوں کو ناکام بنانے کی سازش میں اپنا حصہ ڈالا ہے، بھارت کا یہ رویہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برادری کو اس نام نہاد عظیم جمہوریہ سے یہ سو ال بہرطور پوچھنا چاہئے کہ جس ملک کے وفاقی دارالحکومت میں انتہا پسند ہندو پولیس اور سنٹرل فورسز کے اہلکاروں کی حفاظت میں مسلم برادری کی املاکوں کی لوٹ مار اور ان کی زندگیوں سے کھیلنے کے لئے آزاد ہوں وہ کس منہ سے من گھڑت الزامات لگا کر کسی دوسرے ملک کی امن وانسانیت کے حوالے سے خدمات کو مشکوک بنانے پر تلا ہوا ہے؟ حال ہی میں دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات کے بعد متاثرہ مسلمان طبقہ کے لوگ ہی کیوں گرفتار کئے گئے، فسادات کے اصل ذمہ داروں کو پولیس نے تحفظ فراہم کیوں کیا؟ بھارتی قیادت منفی پروپیگنڈے کے ذریعے کرتارپور راہداری کے بارے میں غلط تاثر پھیلانے کی بجائے غیر ہندو مذہبی برادریوں کے خلاف جاری دہشت گردی کی سرپرستی ترک کرکے اپنے حقیقی فرائض پر توجہ دے یہی اس کا فرض ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارتی وزارت داخلہ اور خارجہ کی جانب سے ایک ہی وقت میں کرتار پور راہداری کے خلاف بیان بازی کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ نریندر مودی کے دورہ سرینگر سے قبل مقبوضہ کشمیر میں پکڑ دھکڑ اور تشدد کا جوبازار گرم کیا گیا اس سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جاسکے بہر حال یہ تلخ حقیقت ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت سیکولر بھارت کے کریا کرم کو اپنا مشن سمجھتی ہے سیکولر بھارت کے کھنڈرات پر تعمیر ہوتا ہندو توا والا بھارت آنے والے برسوں میں کیا چاند چڑھائے گا اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مودی سرکار نے بھارت میں نفرت کی خلیج اتنی گہری کردی ہے کہ اسے پاٹنا ہر گزرنے والے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں