نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے

عجیب منتشر الخیالی ہے ‘ سیاسی موضوعات تو ایک سے بڑھ کر ایک بلکہ ہاتھ باندھ کھڑے ہیں ‘ کہ بقول فارسی کے ایک استاد شاعر’ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست ‘ مگر صورتحال جس تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ابھی چند لائنیں لکھ کر بندہ کسی ممکنہ نتیجے کے حوالے سے پیش گوئی کرنے پاتا ہی نہیں کہ نئی خبر وائرل ہوجاتی ہے اب تو لکھنے والا اپنی تحریر پر خط تنسیخ پھیرنے پر مجبور ہوجائے یا پھر کاغذ ہی پھاڑ دے اور تازہ ترین صورتحال پر نئے سرے سے لکھنے پر خود کو آمادہ کرے ‘ مگر اس بات کی بھی کیا ضمانت کہ ایسا کرنے سے مدعا پورا ہو جائے گا ‘ اس لئے اس سیاسی منتشر الخیالی کی کیفیت سے بچنے کے لئے موضوع ہی تبدیل کرتے ہوئے کسی اور مسئلے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں’ تاہم اس کیفیت میں بھی اگر درمیان میں چلتے چلتے سیاسی صورتحال پر بطور تڑکہ تبصرہ سامنے آجائے تو اس سے مفر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے ‘ بہرحال بقول آخری حکمران ہندوستان بہادرشاہ ظفر
بات کرنی ہے مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی
پھربھی کالم کا پیٹ توبھرنا ہے ‘سو اتنا کہنے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ ہونا ‘ ہونا کچھ بھی نہیں ہے مگر دل پشوری کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ‘ یعنی وہ جو دو روز پہلے میئر پشاور نے شہر میں سوئی گیس کی شدید قلت کے حوالے سے ”نوٹس” لیکر متعلقہ حکام کو رمضان میں شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کی بات کی تھی ‘ اس پر حسب معمول ” خوشامد بریگیڈ” نے ان کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیئے ہیں ‘ اور یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں کہ اب ہمارے معاشرے میں خوشامد پسندی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ نتیجہ صفر بٹہ صفر ہی نکلنا ہے کیونکہ جب سوئی گیس والوں نے لگ بھگ تین ماہ پہلے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ملاقات میں ”صرف تین دن”کی مہلت مانگ کر کم پریشر والے علاقوں میں بڑی قطر کے پائپ لائن بچھانے کا لالی پاپ تھما دیاتھا اور اس پر آج تک عمل نہیں ہو سکا ‘ تو پھر بے چارہ میئر ”کس باغ” سے تعلق رکھتا ہے کہ ان کے ”مستند ہے ان کا فرمایا ہوا” کے بیانئے کو قبول کرتے ہوئے گیس لوڈ شیڈنگ کامسئلہ حل کر دیا جائے گا۔ اس قسم کے وعدے بالکل تازہ سیاسی صورتحال میں وسیم اکرم پلس یعنی سائیں بزدارکے استعفیٰ کی مانند ہے جسے سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی کو دورسے دکھا کر وزارت اعلیٰ پنجاب کالالی پاپ تھما دیا گیا ہے اور جس کی وجہ سے نہ صرف چوہدری خاندان میں پھوٹ پڑ چکی ہے بلکہ اب چھوٹے چوہدری کو احساس ہو رہا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے اور بعض تجزیہ نگار یہ کہتے ہیں کہ یہ سارا اس دبائو کانتیجہ ہے جو مبینہ طور پرمونس الہٰی کے خلاف نیب میں کچھ ریفرنسز میں موصوف کی ممکنہ گرفتاری کے خطرات کی وجہ سے ان کے سر پر منڈلا رہے تھے ‘ اور اسی کارن چند روز پہلے مونس الٰہی اچانک انگلستان یاترا پر بھی مجبور ہوئے تھے ‘ مگر سیانے کہہ گئے ہیں کہ عزت ہر کسی کو راس نہیں آتی ‘ تو چھوٹے چوہدری نے دبائو میں آکر اپنا فیصلہ توبدل لیا لیکن اس سے نہ صرف ان کے گھرانے میں اختلافات پیدا ہوئے بلکہ اب آصف زرداری نے انہیں کھلم کھلا چیلنج کر دیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ پجاب بن کر دکھا دیں ‘ اور دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہم (پی ڈی ایم) بنا کردکھائیں گے ۔گویا
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
خیرجانے دیں ‘ ہم نے تو سرعت سے تبدیل ہوتی ہوئی سیاسی صورتحال پرتبصرے سے گریز کی بات کی تھی سو بہتر ہے کہ اپنے اصل موضوع کی جانب آجائیں ‘ اور میئر پشاور کی اس کاوش کا ذکر کریں جوانہوں نے رمضان المبارک کے دنوں میں شہر کے عوام کوگیس کی فراہمی بہتر بنانے کے لئے شروع کی ہے ‘ اس پر ان کی توصیف کرنے سے بخل سے کام لینے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کی ہر ممکن تعریف کی جانی چاہئے مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوہے کے وہ چنے ہیں جواپنے ہی دانت نہ تڑوائے جائیں ‘ اس کا ثبوت اوپر کی سطور میں ہم نے دیدیا ہے یعنی جب وزیر اعلیٰ ہی سوئی گیس والوں کالالی پاپ لیکر بہل گئے تو میئر توابھی طفل مکتب کے زمرے میں شمار ہوتا ہے ‘ ان کو وعدوں کے نہ صرف لالی پاپ بلکہ کون آئسکریم سے بہلانا کیونکر ناممکن ہے ‘ اور میئرصاحب اس صورتحال پر ہمارا ہی یہ شعر زیر لب ادا کرنے پرمجبور نہ ہوجائیں کہ
وہی بچپن کے لمحے لوٹ آئیں
ہمارے ہاتھ میں پھر جھنجھنے ہوں
اس کے باوجود بھی ہم تو دعا ہی کر سکتے ہیں کہ شہریوں کو سہولتوں کی فراہمی میں میئر صاحب کامیاب ہوں اور شہری بھی نہال ہو سکیں ‘ ادھرماہ رمضان کاچاند دیکھنے کے حوالے سے ایک اچھا قدم یہ اٹھایا گیا ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس اب کی بار پشاور میںمنعقد کیا جارہا ہے ‘ اس سے بھی زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں پشاور کی صدیوں پرانی کمیٹی جومسجد قاسم علی خان میں قائم ہے ‘ اس کے مرکزی سربراہ مفتی شہاب الدین پوپلزئی کو بھی سرکاری کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق حکومتی کمیٹی کے کچھ ارکان مفتی شہاب الدین پوپلزئی سے ملاقات کرکے انہیں مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پرآمادہ کریں گے ۔ اب یہ تومفتی صاحب موصوف کی صوابدید ہے کہ وہ اس دعوت کو پذیرائی دیتے ہیں یا نہیں کیونکہ مسجد قاسم علی خان کمیٹی کا اجلاس بھی اسی روز ہوگا ‘ بہرحال ہم مفتی صاحب سے اتنی گزارش ضرور کریں گے کہ خود وہ اگر اپنی مسجد کی کمیٹی کے اجلاس میں مصروف ہوں تو کم از کم اپنا نمائندہ ضرور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے اجلاس میں بھیج کر یکجہتی کا اظہار کریں ۔ کیونکہ محکمہ موسمیات کی چند روز پہلے کی جانے والی پیشگوئی کے مطابق چاند 29 ویں شعبان ہی کو نظر آنے کے قوی امکانات ہیں یعنی اب کی بار کسی قصیے کا کوئی خطرہ نہیں ہے توپھراکٹھے بیٹھ کر قوم کو خوشخبری دینے میں کیا حرج ہے؟
دن ڈھل رہا ہے ‘ وقت کو تازہ اڑان دے
آ ‘ اے امام عصر ‘ حرم میں اذان دے

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ