”نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں”

ڈالر کی اونچی اُڑان کو روکنے کے لئے حکومت نے لگژری اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کر دی ہے ۔ان میں بڑی گاڑیاں’چاکلیٹ’موبائل فونز کراکری آئٹمز ‘ڈیکوریشن کا سامان فش فروزن فوڈز فرنیچر میک اپ کا سامان اور کئی دوسری اشیاء شامل ہیں ۔وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلے کا اعلان کیا ۔مریم اورنگزیب نے ملک کی موجودہ معاشی حالت کی ذمہ داری ماضی قریب کی حکومت کی پالیسیوں پر عائد کی اور انہی کو آئی ایم ایف سے معاہدہ کا ذمہ دار قرار دیا جو مہنگائی بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے ملک کی موجودہ معاشی حالت زار کو ماضی کی حکمرانوں کی پالیسیوں کوقراردینا درست بھی ہو سکتا ہے مگر موجودہ حکومت ایک تجربہ کار ٹیم کی حامل ہے ۔اس کے پاس اسحاق ڈار جیسے ماہرین معیشت ہیں اور اس کے علاوہ بھی کئی تجربہ کار نام ہیں ۔یہ برسہا برس تک برسراقتدار رہنے والی دوجماعتوں مسلم لیگ( ن) اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت ہے ۔اس طرح موجود ہ حکومت کی ذہانت ،اہلیت اور تجربہ دوگنا ہے۔مائنس پی ٹی آئی یہ ملک کی تیرہ جماعتوں کی مخلوط حکومت ہے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو شامل کیا جائے تو اسے قومی حکومت ہی کہا جا سکتا ہے ۔اس طرح یہ اجتماعی دانش کا اکٹھ ہے ۔گزشتہ دور میں جس تجربے اور اہلیت کا رومانس عوام کو دکھایا جا رہا تھا وہ اس وقت تک کہیں دکھائی نہیں دے رہا ۔اتحادی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی اپنائے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔اچھا فیصلہ کرتے وقت سب اتحادی فخریہ انداز اپناتے ہیں مگر مشکل اور تلخ فیصلوں کے وقت اتحادی نظریں چراتے اور دامن بچاتے نظر آتے ہیں ۔ بعض مواقع پر تو اتحادی اپنے اتحادی ہونے اور حکومت کو اونر شپ دینے سے ہی انکاری نظر آتے ہیں ۔یوں لگتا ہے کہ اپوزیشن کا یک نکاتی ایجنڈا عمران خان کو منظر سے ہٹانا تھا ۔اس کے بعد کیا ہوگا ؟ اس کا ہوم ورک اپوزیشن نے نہیں کیا تھا ۔اپوزیشن نے اپنی ساری صلاحتیں مہنگائی مارچ اور احتجاجی جلسوں اور مشترکہ ڈنر لنچ پر مرکوز رکھیں ۔شیڈو کابینہ تشکیل دے کر کوئی پالیسی بنانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔عمران حکومت کی معاشی پالیسیوں پر جم کر تنقید کی گئی مگر متبادل پالیسیاں تشکیل دینے کی طرف توجہ نہیں دی گئی ۔صاف لگتا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت گرانے کے بعد حکومت چلانے کے لئے کسی معجزے کی توقع تھی ۔حکومت گرگئی اور اپوزیشن حکومت بھی بن گئی مگراب حالات کی دلدل کا سامنا ہے ۔اتحادیوں کی تو بات ہی کیا اصل حکومت یعنی مسلم لیگ( ن) کے مختلف کردار بھی حکومت کو اوونر شپ دینے کی بجائے طنز واستہزا پر اُتر آئے ہیں اس میں سب سے اہم تبصرہ اسحاق ڈار کا ہے ۔اسحاق ڈار نے مفتاح اسماعیل کو وزیر خزانہ بنانے والوں کی عقل کا ماتم کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ مفتاح اسماعیل فیکٹری کے مالک تو ہیں مگر ماہر معیشت نہیں ۔یوں اسحاق ڈار وزیر اعظم شہباز شریف کے حسن انتخاب پر برسر عام انگلیاں اُٹھارہے ہیں ۔شاہد خاقان عباسی نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ اگر حکومت معاملات کو سنبھال نہیں سکتی تو الیکشن کا اعلان کر دے ۔ حکومت سے اپنوں اور اتحادیوں کی بے اعتنائی بڑھنے کی دوجوہات ہیں ۔اول یہ کہ عمران خان عوامی عدالت لگائے بیٹھے ہیں اور ان کی تحریک کا جوش وجذبہ بڑھتا جا رہا ہے ۔یہ لہر پنجاب کی بڑی جماعت مسلم لیگ( ن ) کے لئے خاصی مشکل کا باعث ہے بلکہ حکومت اور نیوٹرل قوت بھی اس عوامی دبائو کو محسوس کرنے پر مجبور ہے ۔دوئم یہ کہ معیشت اور سیاست پر حکومت کی گرفت قائم نہیں ہو رہی ۔معیشت کا عالم یہ ہے کہ ڈالر دوسو روپے کی حد عبور کر نے کو تیار بیٹھا ہے ۔لوڈ شیڈنگ نے پرویز مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد کے دنوں کی یاد دلا دی ہے جب بجلی کبھی کبھار آتی تھی ۔دیہاتوں میں اٹھارہ گھنٹے اور شہروں میں چھ سے آٹھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی ۔معیشت کی طرح سیاست کا حال بھی یہی ہے ۔پنجاب میں حمزہ شہباز کے اقتدار کی کشتی سیاسی اور عدالتی بھنور میں پھنس کر رہ گئی ہے ۔عثمان بزدار بدستور وزیر اعلیٰ اور عمر سرفراز چیمہ گورنر ہونے کے دعوے دارہیں انہیں صدر مملکت کی چھتری حاصل ہے ۔سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی گورنر کا عہدہ سنبھالنے کو تیار نہیں ۔اس طرح گورنر ہائوس خالی پڑا ہوا ہے ۔ان حالات میں حکومت کو اس شخص اور قوت کی تلاش ہے جس نے اسے حالات کی دلدل میں دھکا دیا ہے۔بظاہر یہ شخصیت آصف زرداری ہے جنہوں نے رجیم چینج آپریشن کو زمین پر عملانے کے لئے ماحول سازی کی ۔اس و قت حالات کا سار ا بوجھ مسلم لیگ ن پر آن پڑا ہے اور اتحادی صرف اقتدار کے شراکت دار ہیں ذمہ داریوں کے نہیں۔ان حالات میں معیشت کے سنبھلنے کے آثار دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے ۔اس قدر متزلزل اور غیر مقبول سیٹ اپ کو نہ ملکی اسٹیبلشمنٹ سہار ا دے سکتی ہے نہ گلی کوچوں میں موضوع بحث امریکہ زیادہ دیر تک طعن و تشنیع کا نشانہ بنتے ہوئے اپنی ساکھ کی قیمت پر یہ بوجھ تادیر اپنے کندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں