وعدے امیدیں اور ایک توجہ طلب مسئلہ

ہر نئی حکومت ابتدائی عرصہ میں یہی کہتی ہے کہ ہم عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر اقتدار میں آئے ہیں’ تعمیروترقی کے اہداف کے حصول میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی’ انتقام کی سیاست کو دفن کرکے آگے بڑھیں گے۔ عوام بھی ہر نئی حکومت سے توقعات باندھتے ہیں یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ حکومت کا کام عوام کی خدمت کرنا اور انہیں ان مسائل سے نجات دلانا ہی ہوتاہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی عذاب بنی ہوتی ہے۔ یقینا فی الوقت بڑے مسائل میں غربت’ مہنگائی’ بیروزگاری’ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن’ افراط زر شامل ہیں۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کی دو دھاری تلوار بھی لٹک رہی ہے۔ مذاکرات کے نئے دور میں جس کے لئے سٹیٹ بینک کے سربراہ امریکہ پہنچ چکے اور مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا نام ای سی ایل سے نکالا جاچکا ہے وہ بھی امریکہ میں منعقدہ مذاکراتی سیشن میں شریک ہوں گے نئے پالیسی ساز آئی ایم ایف سے کیا رعایت لینے میں کامیاب ہوتے ہیں اس پر قبل از وقت کچھ کہنا ممکن نہیں البتہ یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ6ارب ڈالر کے قرضے پروگرام کی ہر قسط کے اجرا سے قبل کے مذاکراتی عمل میں جس کے اب تک دو دور ہوچکے ہیںآئی ایم ایف کی سخت گیر شرائط کو من و عن تسلیم کرلیا گیا۔ کیااب نئی حکومت اور اس کے پالیسی سازوں سے یہ توقع کی جائے کہ وہ مذاکرات کے عمل میں صرف قسط کے حصول کو ہی مقدم نہیں سمجھیں گے بلکہ اپنے معروضی حالات کے مطابق آئی ایم ایف کے ذمہ داران کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط پر من و عن عمل کا مطلب اپنے لوگوں کو اجتماعی خودکشی پر مجبور کرناہوگا؟ ہمارے قارئین کو یاد ہوگا کہ آئی ایم ایف اور پچھلی حکومت کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے دوران ان سطور میں عرض کیا تھا کہ آئی ایم ایف کے حکام نے پاکستانی وفد کو دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ سخت شرائط امریکہ کے کہنے پر لگائی گئی ہیں اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے بھی اعتراف کیا تھا کہ امریکہ افغان معاملات کے حوالے سے کچھ ناراض ہے یہ ناراضگی قائم ہے یا ختم ہوئی ؟ کیونکہ اگر ناراضگی موجود ہے تو مشکل ہوگا کہ آئی ایم ایف کوئی ریلیف دے جبکہ ہماری ضرورت ریلیف کے ساتھ بانوے کروڑ ڈالر کی قسط ہے جو گزشتہ ماہ یہ کہہ کر روک لی گئی تھی کہ اس پر اب نئی حکومت سے بات ہوگی موجودہ صورتحال میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ خدا کرے کہ نئی حکومت عوامی مسائل اور دیگر معاملات پر توجہ مرکوز کرے ‘انتقامی پالیسیوں اور سوچ کو دفن کردے البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کرپشن ہوئی ہے یا اقربا پروری اسے محض اس لئے نظرانداز کردیا جائے کہ عمومی تاثر یہ ہوگا کہ بدلے کی سیاست کی جارہی ہے۔ ہماری رائے میں سب سے مناسب بات یہ ہوگی کہ لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ ملک کی تقریباً نصف آبادی انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ایسی حکمت عملی وضع کی جائے کہ آبادی کا یہ حصہ بہتر زندگی کی طرف لوٹ سکے۔ مہنگائی کو مکمل ختم نہ بھی کیا جائے تو بھی ایسے اقدامات ناگزیر ہیں جن سے بدحالی کا شکار شہریوں کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے۔ وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں تنخواہوں اور پنشن میں10فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا اس کااب تک نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا۔ ملک میں بیروزگاری ہے’ افراط زر کے مسائل بہرطور موجود ہیں۔ ان مسائل کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سابق حکمران قیادت قومی اسمبلی سے مستعفی ہوچکی ہے۔ روزمرہ کے عمومی مسائل اور مملکت اور دیگر معاملات کے ساتھ اس سیاسی بحران کا حل بھی تلاش کیا جانا ازبس ضروری ہے تاکہ کوئی نیا بحران سر نہ اٹھاپائے۔ نومنتخب حکمران اتحاد میں وفاقی کابینہ کے حوالے سے اختلافات کی خبریں ہیں خود حکومت کے اپنے مفاد میں یہ ہوگا کہ اختلافات کو حل کرنے پر توجہ دی جائے۔ بلوچستان کے لوگوں کی شکایات ان کے مسائل اور دوسرے متعلقہ معاملات ایک تلخ حقیقت کے طور پر موجود ہیں۔ چاغی میں چند دن قبل پیش آئے دو افسوسناک واقعات سے پیدا ہوئی تلخی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ناراض بلوچ بھائیوں کو قومی دھارے میں لانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے لوگوں کے احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا یہ اسی طور ممکن ہے جب انہیں مساوی شہری سمجھا جائے۔ خیبر پختونخوا میں ضم شدہ سابق قبائلی علاقوں کے مسائل بھی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سابق متحدہ اپوزیشن جو اب حکمران اتحاد کے طور پر امور مملکت سرانجام دینے کے فرائض سنبھالے ہوئے ہے اسے یہ حقیقت مدنظر رکھنا ہوگی کہ یہ مشکل ترین دور ہے ہر حوالے سے مشکلات’ مسائل اور چیلنجوں سے عہدہ برآ ہوکر سرخرو ہوا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی مفاہمت کے لئے بھی سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک اور قوم کو بے مقصد محاذآرائی سے محفوظ رکھا جاسکے۔ داخلی مسائل کی تلخی کو سیاست کا حصہ بنانے کی بجائے تلخی کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ پچھلے دو دنوں کے دوران چند وزرا کے بیانات سے یہ تاثر ملاکہ جیسے نئی حکومت سابق حکمران قیادت کو دیوار سے لگانے کی سوچ رکھتی ہے۔ امید ہے کہ یہ تاثر الفاظ کے چنائو میں عدم احتیاط کی وجہ سے پیدا ہوا ہوگا۔ نئی حکومت انتقامی سیاست میں وقت برباد کرنے کی بجائے اصل فرائض پر توجہ دے گی۔ کالم یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان سے متعدد دوستوں کے پیغامات موصول ہوئے سید عمار یاسر کاظمی ۔ ظفر درانی اور دیگر دوستوں نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے زونل آفس کی ڈیرہ اسماعیل خان سے بنوں منتقلی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے سوال کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خاندان کو جب بھی طاقت و اختیار حاصل ہوتا ہے تو وہ ڈیرہ اسماعیل خان سے کسی ریجنل آفس کو بنوں منتقل کروادیتے ہیں ؟ ان احباب نے ان درجن بھر ریجنل دفاتر کی فہرست بھی بھیجی ہے جو بقول ان کے مولانا کے خاندان کے دبائو اور سفارش پر ڈیرہ اسماعیل خان سے بنوں شفٹ کئے گئے ۔ اس پر یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگ پہلے ہی انگنت مسائل کے ساتھ محرومیوں کا شکار ہیں کون ہے جو انہیں یہ باور کرانا ضروری خیال کرتا ہے کہ یہ درجہ سوئم کے شہری ہیں ؟

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم