” ویلکم ٹو پرانے سے بھی پرانا پاکستان”

ملک میں چوٹی کے وکلا ء کی قیادت میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے لئے ایک احتجاجی تحریک کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔اعتزاز احسن ،سردار لطیف کھوسہ ،بابر اعوان ،احمد رضا قصوری منصور زبیری جیسے جید وکلاء اس تحریک کی قیادت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ اسلام آباد کے وکلا ء کنونشن میں ان سینئر وکلا کی تقریروں نے ایک سماں باندھ دیا ہے اور افتخار چوہدری کی بحالی کی طرز پر ایک احتجاجی تحریک کی باتیں ہونے لگی ہیں ۔ماضی میں پاکستان کی روایت یہ رہی ہے کہ کوئی بھی احتجاجی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسے ملک کی ہیئت مقتدرہ کی خاموش حمایت حاصل نہ ہو۔عمران خان کی ڈیڑھ برس تک جاری عوامی تحریک اس کی مثال ہے کہ جو بڑے پیمانے پر عوامی شرکت کے باوجود اس لئے بار آور ثابت نہ ہو سکی کہ اسے ہئیت مقتدرہ کی مخالفت کا سامنا تھا ۔ایسے میں کالے کوٹ کی کروٹ ملک میں کیا کمالات دکھائے گی کچھ کہنا قبل از وقت ہے ۔اچھا تو یہی ہوتا کہ اس وقت گری پڑی ہوئی معیشت کے حامل ملک میں احتجاجی تحریکوں میں زور آزمائی کی بجائے قومی مفاہمت سے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا اور کسی مینجمنٹ اور ہاتھ کے کمالات اور ریگ مال کے ذریعے شفافیت سے آزاد انتخابات کا انعقاد کرکے ملک کو آگے بڑھنے دیا جاتا ۔مگر مفاہمت کی بجائے زورآزمائی کو ہی حکمت ودانش کا راستہ سمجھ لیا گیا ہے ۔ملک میں ایک سیاسی تحریک عارضی طور پر دب کر رہ گئی ہے اور اس تحریک کو دبانے والے اکثر کردار ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاکر بیرون ملک سدھار گئے ہیں ۔سولہ ماہ کی خوش باش اور صحت مند زندگی کے بعد پرانے عوارض نے دوبارہ سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے ۔ملک کے عوام حالات کے بھنورمیں گھومتے اور مقدر کے گھن چکر میں پستے جارہے ہیں۔چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے بعد ملک میں چینی کی کمی واقع ہو گئی تو وہی چینی مہنگے داموں درآمد کی جارہی ہے مگر اس ہیرا پھیری میں نوے روپے کلو والی چینی دو سو روپے میں مل رہی ہے ۔شوگر مل مافیا جو پی ڈی ایم کی حکومت کا سب سے بڑا شراکت دار تھا اس ایک ہیر پھیر سے اربوں کھربوں کماچکا ہے اس کا سارا ملبہ سارے مضر اور تباہ کن معاشی اثرات غریب آدمی کے سر ہیں۔مافیاز کی طاقت کی اس فصیل کو توڑنے کی کوشش میں ایک حکمران اپنے ہاتھ زخمی کرکے اب اٹک جیل کی نیم تاریک کوٹھڑی میں پہنچ گیا جو آنے والوں کے لئے بھی پیغام ہے کہ اس جمے جمائے سسٹم کو بدلنے یا اس دیوار سے سر ٹکرانے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ۔شوگر مل مافیا وہی اشرافیہ ہے جس کے لئے ملک کے تمام وسائل وقف ہیں اس کا طریقہ واردات یہی ہے کہ یہ کسی سیاسی شخصیت یا جماعت پر تھوڑی سی سرمایہ کاری کرکے اسے اقتدار میں لاتے ہیں پھر اس احسان کے بدلے ایک دستخط کروا کر مزے لوٹتے ہیں ۔ملک میں آج چینی کے بحران کی کہانی بھی فقط اتنی ہے ۔اب پی ڈی ایم کے مختلف عناصر چینی کی برآمد کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن اس فیصلے کو پیپلزپارٹی کا فیصلہ قرار دے کر خود کو بری الذمہ قرار دے رہی ہے تومولانا فضل الرحمان جنہوں نے رجیم چینج کے وقت نہایت سپاٹ لہجے میں کہا تھا کہ ہمار کام خزاں کو رخصت کرنا اب بہار آئے نہ آئے یہ ہمارا مسئلہ نہیں اب کہتے ہیں کہ وہ عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھے بلکہ یہ کام پیپلزپارٹی کی خواہش پر کیا گیا تھا ۔گویا کہ وہ ایک آپریشن کے انداز میں حکومتی تبدیلی کے عمل کو ڈس اوون کرنے کے راستے تلاش کررہے ہیں ۔ابھی کیا ہوا ابھی تو ابتدا ہے جوں جوں سائفر کیس میں معاملات کھلنے لگیں گے اور معاشی حالات اور خراب ہوں گے تو باقی کردار بھی اپنی مجبوریاں گنواتے نظر آئیں گے ۔جنرل باجوہ نے تو پہلے ہی جاوید چوہدری کے ساتھ ملاقات میں یہ کہہ کر لائن تبدیل کر لی تھی کہ میں نے تو عمران خان کو ہٹا کر اسے مقبول بنادیا ۔گویا کہ انہوں نے عمران خان پر ایک احسان کیا تھا ۔عین ممکن ہے عمران خان کو ہٹانے کے بعد فاتحانہ انداز میں” ویلکم ٹو پرانا پاکستان”کا نعرہ لگانے والے بلاول بھٹو زرداری بھی اس جملے کو ڈس اوون کردیں شاید وہ اپنے دعوے پر کچھ عرصہ بعد نادم نظر آئیں گے کہ عمران خان کے خلاف سازش وائٹ ہائوس نے نہیں زرداری ہائوس نے کی تھی۔ بلاول نے تو فقط ویلکم ٹو پرانا پاکستان کہا تھا مگر جس مبینہ طور پر طرح کراچی میں کچھ گھروں سے مال ومتاع برآمد ہونے کی کہانیاں سامنے آرہی ہیں اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے اکھڑے اکھڑے سے بیانات سامنے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ معاملہ” ویلکم ٹو پرانے سے پرانا پاکستان”کی طرف جا رہا ہے جب ملک میں جنرل مشرف کی حکومت تھی اور کم یا زیادہ ہر کوئی احتساب کے نام پر حالات کا سامنا کر رہا تھا ۔پرانا پاکستان سے بلاول بھٹو کی مراد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے حالیہ ادوار والا پاکستان تھا مگر اس سے بھی پرانا پاکستان وہ تھا جس میں جنرل پرویز مشرف دونوں بڑی جماعتوں پر سخت ہاتھ ڈالے ہوئے تھے۔ سائفر کیس بہت کچھ کھول کر رکھ دے گا ۔معاملہ سائفر کے وجود سے انکار کے بعد اب اس کی حرمت او رتقدس کا ہو چکا ہے اور تقدس اسی شے کا ہو تا ہے جس کا وجود ہو۔یوں دوسرے لفظوں میں یہ سب کچھ حقیقت ثابت ہونے جا رہا ہے جسے پی ڈی ایم والے افسانہ کہہ کر جھٹلایاکرتے تھے ۔ایک افسانہ تو یہ بھی ہے کہ پاکستان بس صرف چند برس پہلے تین سال کے دوران ایشین ٹائیگر بننے کی دہلیز پر تھا سال بھر او رملتا تو پاکستان نے جست لگا کر دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کی طرح ساتویں بڑی معیشت بنناتھا ۔یہ تو برا ہو بقول ایک مولانا وکی لیکس کے بھائی پانامہ لیکس کا جس نے سارا منظر بدل ڈالا۔ایسا کرنے اور کہنے والے محض بیانیہ سازی کے شوق میں اس دور کے اخبارات کی فائلوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔باتیں یوں کی جارہوں کہ جیسے کل کی بات نہ ہو ازمنہ ٔ وسطی ٰ کا ذکر ہو رہا ہو۔لوگوں کے حافظے کا امتحان بہت مہارت سے یوں بھی لیا جا سکتا ہے حیرت ہے۔ ملک میں بجلی اور گیس کا سنگین بحران مشرف حکومت کے ختم ہوتے ہی شروع ہوا اور پیپلزپارٹی کی حکومت اس پر قابو نہ پا سکی جبکہ میاں نوازشریف کی حکومت نے اسے بحران کو کچھ نہ کچھ سنبھالا دیا مگر یہ وقتی اور عارضی حل تھا ۔ملک کے معاشی ماڈل اور بنیادی سٹرکچر کو بدلے بغیر مسئلہ حل نہیں ہونا تھا ۔مہنگائی ایک خاموشی کے ساتھ بڑھتی رہی کیونکہ میڈیا کو اس پر شور کرنے کی فرصت نہیں تھی ۔بہت سی اشیائے ضروریہ چیزیں اس دور میں نہایت خاموشی سے بڑھتی رہیں ۔بعد میں یہ عمل تیز ہو گیا اور مہنگائی مارچ کرنے والے پی ڈی ایم نے ہاتھ کے وہ کمالات دکھائے کہ حالات کی باگیں ہی ہاتھ سے نکل گئیں مگر میڈیا خاموش اور بے سُدھ رہا ۔ایسے میں کالے کوٹ کی کروٹ پہلے ہی تنازعات میں گھرے ملک میں کوئی اچھی روایت نہیں بلکہ مفاہمت اور بات چیت اور حالات اور عوام کے آگے خود سپردگی ہی کشتی کو بھنور سے نکالنے کا واحدراستہ ہے۔

مزید پڑھیں:  بے بس حکومتیں بیچارے عوام