3 351

پالیسی

مومی طور پر ایک رائے فروغ پارہی ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے خطاب میں جو فرمایا وہ درست ہے، ایسا ہی ہونا چاہئے، عوام کا تو دو ٹوک مؤقف یہ سامنے آیا ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے یہ الفاظ کہ ”ماضی کو دفن کیا جائے اور آگے بڑھا جائے اور ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے ہم باہر سے کوئی توقعات نہیں رکھ سکتے” یہ دونوں باتیں جمعرات کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب سے اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ2021 کی تقریب میں تقریر کے دوران کہی گئیں جس کے بعد جہاں کئی افراد ان کے بیانات کو سراہتے نظر آئے وہیں سوشل میڈیا پر صارفین سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے ‘بیانئے’ اور ‘ڈان لیکس’ کا ذکر کرتے بھی نظر آئے۔
جنرل باجوہ نے پہلی بات انڈیا پاکستان تعلقات اور کشمیر کے مسئلے کے تناظر میں کی اور کہا گیا کہ بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک انڈیا کو خاص طور پر اپنے زیرانتظام کشمیر میں ماحول کو سازگار بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔ باجوہ کا یہ مطالبہ حل کی جانب مثبت قدم قرار پاتا ہے، کیونکہ کسی بھی سطح کے مذاکرات یا معاہدات ہوں جب تک اس کیلئے حالات سازگار قائم نہ کئے جائیں اس وقت تک کوئی بھی مثبت پہلو نہیں اُبھرا کرتا۔ پاک بھارت کے تعلقات کے باب میں ماضی اس امر کی گواہ ہے کہ فضاء کھدری ہونے کے سبب نتائج منفی ہی نہیں بلکہ خطرے کی گھنٹی بجا گئے۔پڑوسیو ں کے حالات سدھارنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ پڑوسی ایک پرسکون زندگی سے لطف اندوز ہوں اور آس پڑوس کی ترقی وخوشحالی کیلئے کمربستہ رہیں ایسا جبھی ممکن ہو سکتا ہے جب خطے میں معاشی، اقتصادی استحکام مضبوط بنیادوں پر استوار ہو۔ اس بارے میں جنرل باجوہ نے اپنی تقریر میں چار نکات کا ذکر کیا، ان میں اندرونی وبیرونی امن کی بحالی، اپنے ہمسایوں اور خطے کے ممالک کے معاملات میں کسی قسم کی مداخلت سے گریز کرنا، خطے میں تجارت اور آمد ورفت کی بہتری کو فروغ دینا، سرمایہ کاری اور اقتصادی مراکز کے قیام کے ذریعے پائیدار ترقی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ ان نکات کا ذکر کرتے ہوئے جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ ”ہمیں احساس ہو گیا تھا کہ جب تک ہم اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کرتے ہم باہر سے کوئی توقعات نہیں رکھ سکتے”۔
جنرل باجوہ کے اس بیائیے کے تناظر میں سابق وزیرِاعظم میاں نواز شریف کے ذکر ماضی میں ان کی کشمیر پالیسی سے متعلق دئیے گئے بیانات اور ”ڈان لیکس” کے معاملے میں فوجی افسران سے ہونے والی مبینہ بات چیت قرار دی جا رہی ہے حالانکہ مسلم لیگ ن کے حلقے کسی ڈیل یا مذاکرات کے بارے میں کوئی اتہ پتہ نہیں دیتے تاہم اس حوالے سے سوشل میڈیا پر اکثر عوام یہ استفسار کرتے نظر آرہے ہیں کہ جب ایسا ہی بیانیہ اور باتیں، ان کے مطابق، نواز شریف اور ان کی حکومت کے دیگر عہدیدار کیا کرتے تھے تو انہیں ”مودی کا یار” جیسے خطابات سے نوازا جاتا تھا اور ڈان لیکس جیسے تنازعات سامنے لائے جاتے تھے۔ کشمیر کے بارے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیانیہ ماضی میں مسلم لیگ ن اور پی پی کی پالیسیوں سے مطابقت رکھتا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ایک رو ز پہلے اسی تقریب کے پہلے روز خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان سے تعلقات بحال کرنے کیلئے انڈیا کو پہلا قدم اُٹھانا چاہئے۔ اس ضمن میں رواں برس فروری میں ہونے والی یہ پیش رفت بھی اہم ہے جس میں انڈیا اور پاکستان نے ایک دوسرے کے بنیادی معاملات اور تحفظات کو دور کرنے اور ایل او سی پر جنگ بندی پر سختی سے عمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد بھی نواز شریف کی جانب سے جنوری2018 میں ایک بیان میں ”اپنا گھر ٹھیک کرنے” کے بارے میں بات کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ”ہمیں خود فریبی کے چنگل میں نہیں پھنسنا چاہئے اور یہ سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں پاکستان کے حوالے سے منفی تاثرات کیوں پائے جاتے ہیں” اس کے بعد مئی دو ہزار اٹھارہ میں ڈان اخبار میں نواز شریف کا سرل المیڈا کو دیا گیا ایک انٹرویو شائع ہوا تھا جس میں اخبار کے مطابق جب نواز شریف سے پوچھا گیا کہ انہیں عوامی عہدے سے ہٹانے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں تو نواز شریف نے براہ راست جواب دینے کے بجائے اس کا رخ خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی جانب کر دیا تھا۔ جنوبی ایشیا کے معاملات پر نظر رکھنے والے مائیکل کوگلمین کا کہنا ہے کہ ”میرے اندازے کے مطابق یہ پہلا عالمی ڈائیلاگ ہے جو پاکستان کی جانب سے منعقد کروایا گیا ہے اور اس کی میزبانی کرنے کا یہی صحیح وقت تھا۔ اس کے ذریعے انتہائی اہم پالیسی تقاریر سامنے آئی ہیں جن میں سب سے اہم جنرل باجوہ کی ہے۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو